دنیا کے نقشے پر اس وقت موجود اسلامی جمہوریہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو خالصتاً اسلامی نظریہ حیات کے قیام و دوام کے لئے معرضِ وجود میں آیا تھا مگر بدقسمتی سے قائد اعظم کے بعد اس کی زمام ِ اقتدار ایسے گروہ کے ہاتھ میں آتی رہی جس کا مقصد مغربی تمدن کی رعنائیوں کی تقلید کرنا اور انہیں بتدریج پاکستانی سماج میں فروغ دینا اور پھر کسی شکل میں انہیں قانون کا حصہ بنانا تھا ۔ آج حقوقِ نسواں کے نام نہاد چمپئن ذرا محسن ِ کائنات حضور سرور عالم ﷺکے عطا کردہ نظام حیات کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر کریں تو ان کا دریچۂ قلب و نظر خود بخود وا ہونے لگے گا ۔ حضور سرور عالمﷺ نے مخدراتِ گیتی کو زمین کی پستیوں سے آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا وہ عورت جو معاشرے کا جزوِ لاینفک ہے اس وقت ان بد طینتوں کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنی ہوئی تھی، اسے بے جرم و خطا زندہ درگور کر دینا ان کا شیوہ بن چکا تھا مگر انسانیت کا بال بال اس شہہ عرب و عجم ﷺ کا ممنونِ کرم رہے گا کہ آپؐ نے اپنے دست ِ شفقت سے عفت و عصمت کا ایک ایسا ہالہ قائم فرما دیا جو تا ابد اپنی تابش سے تاریک دلوں کو جگمگاتا رہے گا۔ قرآن اور صاحب قرآن کے عطا کردہ قوانین و ضوابط کی موجودگی میں حقوقِ نسواں کے بل کے کسی نئے تماشے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ عورت کی عصمت اور اس کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ابھی اس کے نتائج و عواقب سے بالکل بے نیاز ہیں اور میڈیا پر اپنے بے وزن اور بے سروپا دلائل کے ساتھ عوام کو بیوقوف بنا کر اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے بے ہنگم اور بے وقعت اقدامات کا بدیہی مقصد یہ نظر آتا ہے کہ (معاذاللہ) ہمارا مذہبی سماجی اور خانگی نظام حیات اغلاط کا شکار ہے اور اس میں حقوق نسواں کے متعلق محرومی پائی جاتی ہے لہٰذا ایک نیا بل منظور کر کے ان خامیوں کو دور کر دیا جائے۔ہم لوگ پہلے ہی نظریہ پاکستان سے مسلسل بے وفائی کرنے کا خمیازہ اغیار کی دریوزہ گری کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ معاشرے میں قتل و غارت گری کا لامتناہی سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ دلوں کو مسکن روحانیت بنانے کی بجائے مادہ پرستانہ نظریات کا فروغ، دینی اسکالرز کی حوصلہ شکنی اور مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کو اپنا اثاثہ ِ فخرو مباہات قرار دینا، خواتین کی عصمت و حیا کی علامت اور زیور پردے کو ملکی ارتقاء میں رکاوٹ سمجھنا، اہل مغرب کی نظروں میں سما جانے کے جنون میں لبرل ازم کے شعلوں کو ہوا دینا، یہ سب کچھ نظریہ اسلام و پاکستان سے انحراف کا ہی شاخسانہ ہے۔ میں ایسے آزاد خیال صاحبان ذوق کی خدمت میں بصد احترام یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ احکام قرآن و سنت کی جتنی چاہیں تاویلات کر کے آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کر لیں، خدا کے فضل سے ایک وقت ضرور آئے گا جب لبرل ازم کا موجودہ فلسفہ اپنی موت آپ مر جائے گا اور اہل پاکستان کی نگاہوں میں روحانیت کا چراغ روشن ہو کر رہے گا۔ جو ملک اسلام کے نام پر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو قائم ہوا ہو اس میں جلد یا بدیر قرآن و سنت کے احکامات کی ترویج ہو کر رہے گی انشاء اللہ
اس ملک پہ مولا کا کرم ہو کے رہے گا
یہ دَیر کسی روز حرم ہو کے رہے گا