سعدیہ اسلم
نوجوان کسی بھی قوم و ملک کا قیمتی سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان اگر با حوصلہ اور باہمت ہوں تو وہ قومیں عزت و ترقی کے منصب پر ہمیشہ قائم رہتی ہیں اور دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ مہذب اقوام ہیں انہوں نے اپنے نوجوانوں کے مستقبل کو بہتر سے بہتر کیا۔اس لیے اُن ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان اپنے ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کا ملکی تعمیر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔یونائٹیڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چونسٹھ فیصد آبادی کا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
پاکستانی نوجوان اپنے ہنر و ذہانت سے کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں، یہاں ایسے بے شمار ذہانت سے بھرپور دماغ موجود ہیں جنہوں نے کم وسائل کے باوجود ملک کا نام روشن کیا، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں وہ کون سے ایسے پہلوؤں ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کے حقوق و مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے، کیونکہ ان پر توجہ ڈلوانہ اور ان پر تجزیہ کرنا بہت ضروری ہوچکا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم ہی اتنی پائیدار فراہم نہیں کی جاتی جہاں اداروں کا زُور صرف طلباء و طالبات کو گریجویٹ کرنا ہے۔آج کے تعلیمی ادارے صرف ایک کاروبار کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں ،ان کی تربیت کا اصل مقصد کہیں بہت پیچھے رہ چکا ہے۔گریجویشن کے بعد ہر دوسرےنوجوان کا مسئلہ ’روزگار‘ کا ہی ہے، جس پر زندگی کا نظام منحصر ہے۔پاکستان میں پرائیویٹ و سرکاری کالج و یونیورسٹیز میں کورس ورک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کیا، آج تک کسی بھی کالج و یونیورسٹی نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کے نوجوانوں کو ملک و قوم کے لیے ہنر مند کیسے بنایا جائے؟
ہرگز نہیں جہاں پر تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہو وہاں کے ادارے اس بات پر توجہ کیسے دیں گے اور ایک طالب علم کی قابلیت کو کیسے جانچیں گے۔پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتار روز بروز نیچے کی طرف گر رہی ہے ،جس کی وجہ سے نوجوانوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، جو کہ مزید 6 سے 10 فیصد بڑھ رہی ہے، حکومت اس قابل ہی نہیںکے وہ نوجوانوں میں روزگار کے مواقع بڑھا سکے۔مواقع نہ ملنے سے پاکستان میں نوجوان ڈپریشن پریشانی و الجھن کا شکار ہوچکے ہیں،کیونکہ اچھی تعلیم کے بعد ہر کوئی اچھے روزگار کے خواب سجاتا ہے، اس حصول کے لیے نوجوان مارے مارے پھرتے ہیں لیکن ہر طرف مایوسی ان کا منہ چڑھا رہی ہے۔
ہر نوجوان خودمختار اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہے، چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جہاں کے لوگوں کا سماجی و اقتصادی کیپیٹل مضبوط نہیں کے بغیر کچھ کیے گزارا ہو سکے۔یہاں تعلیم کے بعد والدین کی اپنی نوجوان اولاد سے بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں کیونکہ والدین نوجوان اولاد کا ہمیشہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان میں ان کے مسائل بے شمار اور بات کرنے والے بھی بے شمار لوگ ہیں پر حل پر کوئی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتا۔تعلیمی اداروں کی جانب سے نوجوانوں کی '’’کیریئر کی رہنمائی‘‘ نہیں ہوتی ہے، انہیں بتایا ہی نہیں جاتا کہ وہ کون کون سے مضامین ہیں جن کادائرہ کار پاکستان میں موجود ہے کیونکہ بعض مضامین میں پڑھ کر زیادہ نوجوان اسی پیشے کی طرف جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان پیشوں میں روزگار کی قلت ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو موقع ہی نہیں مل پاتا۔ تعلیمی اداروں نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی جتنی فیس وہ لے رہے ہیں بدلہ میں نوجوانوں کو دے کیا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسی فہرست تشکیل دی جائے جس میں ہر مضامین کا پاکستان میں دائرہ کار واضح ہو جائے۔
تعلیمی اداروں کی طرف سے ایسے پروگرام و سرگرمیاں تشکیل دینی چاہئیں، جہاں نوجوان شامل ہو کر اپنے ہنر و ذہانت سے آشنا ہو سکیں اور جس سے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔پاکستان میں بیشتر نوجوانوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور وہ نوجوان جو کم پڑھے لکھے ہیں ان کےمابین روزگار کی طرف سے آنے والی آمدنی ایک جیسی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نوجوان جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں بہتر روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ایسی آمدنی کما رہے ہیں۔ ہمارے ہاں نوجوان نسل کا یہ مسئلہ ہے کے وہ کسی بہترین سے روزگار کے لیے برسوں فارغ رہ کر گزار دیتے ہیں، وہ خود سے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔انسان کے مقاصد اگر واضح ہوں تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آج کل دیکھا گیا ہے کہ نوجوان انٹرنیٹ پرجزووقتی کام ڈھونڈتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
برطانوی ادارےکی ایک رپورٹ کے مطابق فری لانسنگ کے کاروبار میں پاکستان 10 بڑے ممالک میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔اس میں آپ بیرون ملک موجود کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں، جس میں ڈیٹا انٹری، اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں تو کسی بھی موضوع پر’’کونٹینٹ رائٹنگ‘‘بخوبی کر سکتے ہیں۔سپریڈ شیٹس، ایم ایس ورڈ یا آفس سے متعلق کوئی کام، بنیادی گرافک ڈیزائنگ یا سوشل میڈیا پوسٹ بنانے کا کام اس وقت فری لانسنگ میں کافی چل رہا ہے۔بغیر کسی سرمائے کے شروع کیا جانے والاکاروبار آج کل پاکستان سمیت پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے، منافع کمانے کا بہترین آن لائن ذریعہ ہے اور اپنے گھر بلکہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر با آسانی کاروبار کو چلایا جا سکتا ہے۔اس طریقہ کار میں آپ کسی اور کمپنی کی مصنوعات یا سروسز کو انٹرنیٹ یا ایسے ہی کسی دوسرے ذرائع کے ذریعے فروغ دیتے ہیں اور اسے فروخت کر کے اپنا طے شدہ معاوضہ وُصول کرتے ہیں جیسے آج کل بلاگرز سوشل میڈیا پر یہ کام بہت زیادہ کر رہے ہیں۔
نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے ہنر و وسائل کے مطابق اپنا کاروبارکرسکتے ہیں جیسے کے کوئی ریسٹورنٹ، گھر یا آفسز میں کھانا بھیجنے کا کاروبار، سلائی کڑھائی، بوتیک یا پینٹنگ، وغیرہ بنا کربھی فروخت کی جا سکتی ہیں، ان کاروبار کا فروغ بھی سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹ پر یا کاغذ کے ذریعے اشتہارات بنا کر کیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کو آن لائن کاروبار کے بارے میں پتہ چل سکے گا کیونکہ آج ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کے استعمال سے آگاہ ہے۔ان کاروبار کے شروعات پر آپ کو کافی مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں لیکن اگر آپ کچھ کر جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو یقین جانیے دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو کچھ کرنے سے روک نہیں سکے گی ۔یاد رکھیے! کسی بھی کاروبار میں کامیابی آپ کی ڈگریوں کی نہیں بلکہ آپ کی ذہانت ومہارت اور محنت ولگن کی محتاج ہوتی ہے۔