جمہور کی آواز دباؤ گے کہاں تک مل جل کے حقیقت کو چھپاؤ گے کہا ںتک تاریخ نے ہر دور میں پیغام دیا ہے دربار کا اعلامیہ رُسوا ہی ہوا ہے حکام نے اکثر ستم ایجاد کئے ہیں عشاق نے اکثر قفس آباد کئے ہیں زنداں سے امڈتے رہے افکار کے سیلاب دیکھے ہیں یہیں اہل صفانے بھی نئے خواب اک جسم تو ہوتا ہے گرفتار حوالات آزاد مگر رہتے ہیں قیدی کے خیالات ہر شو میں ہر اک انگ سے یہ جنگ رہے گی ہرسطر میں ہر رنگ سے یہ جنگ رہے گی یہ جنگ تو الفاظ کی حرمت کے لئے ہے یہ نقد سخن میر صحافت کے لئے ہے