نوجوانوں کی ایک نشست میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ’’قوم کب مکمل ہوتی ہے‘‘ اس سلسلے میں وہاں موجود نوجوان اہل قلم نے اپنے دلائل پیش کئے، جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قوم کی تشکیل میں جو اہم نکات درپیش ہیں، وہ یہ ہیں۔
1۔ جس قوم کی افرادی قوت زیادہ ہوگی اور جو بہت زیادہ محنت کش اور جفاکش ہوگی، وہ قوم اک منظم اور مکمل قوم کہلاتی ہے۔
2۔وہ قوم جو ہر لحاظ سے یعنی تمام قدرتی وسائل سے آراستہ ہو اور ترقی کرنے کے مواقع ان کو میسر ہوں۔
3۔وہ اقوام جو تعلیمی حیثیت میں دیگر اقوام کے مقابلے میں زیادہ شعور رکھتی ہو۔
اس مباحثے کو وہاں پر موجود تمام افراد نے سنا اور ان کو داد بھی دی کیونکہ ان کے دلائل بھرپور، جامع اور عہدحاضر کے مطابق تھے ، کوئی ان سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔
اس نشست کے برخاست ہونے کے بعد چند نوجوانوں نے ان کے نکات پر اظہارخیال کچھ اس طرح سے کیا کہ ان کے انداز بیاں کو اور ان کے الفاظ کے چنائو پر تھوڑی سی بحث کی اور پھر ایک تسلسل کے ساتھ ان افراد کی شعوری اختراع کو محسوس کیا اور جو نتائج سامنے آئے کہ صحیح معنوں میں کسی بھی قوم کو صرف قومیت کے نقطہ تک محدود نہیں ہونا چاہئے لیکن جب ہم نوجوانوں نے کرئہ ارض پر بسنے والی اقوام کے متعلق آگاہی چاہی تو وہ تمام نکات ایک بند دروازے کی طرح کھلتے چلے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے کیونکہ اس لقب کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے انسانی ذات سے منسلک ایک فلسفے کو زندہ رکھا ہوا ہے اور وہی ہمیں کائنات میں آباد دیگر جانداروں سے منفرد اور ممتاز بناتا ہے کیونکہ انسان کو عقل و فہم عطا کی گئی ہے۔ اس کی روشنی میں ارتقائی مراحل کے بعد ایک معاشرے کا قیام عمل میں آیا ہے اور یہی تسلسل سے دنیا میں دیگر قومیں آباد ہوتی چلی گئی ہیں۔ اس تحریک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوم کی تشکیل نو کی بنیاد نسل نو سے ہوتی ہے اور اس سلسلے میں جو اہم محرکات سامنے آئے ہیں، وہ کچھ اس طرح کے ہیں۔
1۔ آپ کو انسان اور انسانیت کے فلسفے پر مکمل عبور حاصل ہو۔
2۔ ماں کی گود نسل نو کی کی پہلی درس گاہ ہے۔ اس کی تربیت سے وابستہ تمام امور نسل نو کی شخصیت میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
حق و باطل کا فرق، جزا اور سزا کی پہچان اس کی تربیت کا حصہ بنتی ہے جس کے مکمل اثرات معاشرے پر اور اس کی تہذیب پر پڑتے ہیں اور یہی جھلک قوم کی نشوونما میں نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیکھنے کا عمل جسے ہم ’’علم‘‘ کہتے ہیں، اس سے آگہی بہت ضروری ہے کیونکہ کردار سازی میں ’’علم‘‘ کے ساتھ آپ کے اردگرد کے ماحول کا بہت اثر پڑتا ہے لہٰذا اچھے استاد اور اساتذہ کی رہنمائی میں رہ کر آج کا نوجوان اپنے اندر حقیقی معنوں میں اک خود اعتمادی حاصل کرنے کے علاوہ دیگر علوم کے بارے میں حقائق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کے اندر فکری طور پر جستجو کا جذبہ نمایاں ہوجاتا ہے جو ایک اچھا عمل ہے۔
اس کا حلقہ احباب کا دائرہ بھی وسیع ہوجاتا ہے جس سے نئے نئے آئیڈیاز اس کے ذہن میں پرورش پانے لگتے ہیں جس سے وہ اپنی ذات کے علاوہ ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام شروع کرسکتا ہے۔ قوم بننے کیلئے انتھک محنت، جدوجہد اور یکجہتی، بردباری اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو تمام عالم اقوام کے افراد خاص طور پر نوجوان اپنے اپنے شعبہ جات سے جو خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ ایک قومی نظریئے پر کام کررہے ہیں جس کا مقصد صرف قوم بننا ہے۔ ان کے یہاں ہر عمر کے افراد خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، جو بھی ہنر انہیں آتا ہے، اس کو ایک پروفیشنل کے طور پر اپناتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔
اس کی مثال آپ الیکٹرونک میڈیا خاص کر سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی ایسی ویڈیو اپ لوڈ ہیں جن پر ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کی کیا ضرورت ہے یا یہ کیا احمقانہ حرکات و سکنات ہیں۔ ان اقوام نے اپنے فن کو روزگار بنایا ہوا ہے کیونکہ انہیں حکومتی سطح پر مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے، ان کو ماہانہ وظیفے مل رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ بڑھ چڑھ کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم ترقی یافتہ قوموں کی معاشی استحکام کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے وہاں قوانین کی بالادستی ہے۔ ہر شخص قانون کے دائرے میں آتا ہے اور ساتھ ہی نظم و ضبط کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح ان کو ایک پروقار قوم کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنے کے لیے ابتدائی طور پر بنیادی مسائل کو اجتماعی طور پر قابو پانا ہوگا اور ان کا دوررس حل نکالنا ہوگا۔ ہر شہری کو جو بنیادی حقوق آئین پاکستان میں درج ہیں، انہیں حاصل ہونے چاہئیں۔ آپس کے تمام اختلافات، فرقہ واریت، لسانیت اور معاشی قتل عام کو مکمل خاتمے کے لیے یکجا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے نظریاتی جنگ کو ختم کرکے صرف ایک قوم بن کر مستقبل کا سوچنا چاہئے۔ ہماری نوجوان نسل میں وہ تمام خوبیاں، صلاحیت اور اہلیت موجود ہے جس کی بنا پر ہم ترقی کے افق کو چھو سکتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اہم شعبہ جات میں دنیا میں بہت نام پیدا کیا ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور پذیرائی حاصل کی ہے۔ اب ہمیں بند آنکھوں سے خواب نہیں دیکھنے چائیں بلکہ کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن کے ساتھ خوابوں کی تعبیر حاصل کرنی چاہئے۔ ہمیں علامہ اقبال کی شاعری، فلسفہ حیات، خودی اور قائداعظم محمد علی جناح کے اقوال اور نظریات کی روشنی میں ایک قوم کی صورت میں ترقی کی منازل طے کرنی چاہئیں لہٰذا یہ بات ان دلائل سے ثابت ہوگئی کہ قوم بنتی نہیں بلکہ بنائی جاتی ہے۔