• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دشمن اندر سے ہو تو حملوں کا تدارک نہیں ہو سکتا: APS رپورٹ


سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سانحۂ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی گئی جس میں اسکول کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سانحۂ آرمی پبلک اسکول کمیشن کی رپورٹ 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو، اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برسرِ پیکار رہا ہے، شمال مغربی بارڈر سے حکومت اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔

رپورٹ کے مطابق جب اپنا ہی خون دغا دے تو ایسے ہی تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں، ایسے عناصر کی وجہ سے محدود وسائل میں کیئے گئے سیکیورٹی انتظامات ناکام ہوتے ہیں، ایسے عناصر سے دشمن کو ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے، جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو تو کوئی ایجنسی چاہے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہوتی ہے۔

سانحۂ اے پی ایس کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں دھمکیاں ملنے کے بعد سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دہشت گرد اسکول کے عقب سے کسی مزاحمت کے بغیر داخل ہوئے، دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سیکیورٹی گارڈ جمود کا شکار تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں، سیکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دہشت گرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے، دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب گئے، گاڑی کو آگ سیکیورٹی اہلکاروں کو دھوکہ دینے کے لیے لگائی تھی، گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق آرمی پبلک اسکول کی سیکیورٹی کی 3 پرتیں گیٹ پر موجود گارڈز، علاقے میں پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس 10 منٹ کے فاصلے پر موجود تھیں، تینوں پرتیں دھویں کی طرف متوجہ ہوگئیں جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا، نتیجتاً سیکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک اسکول سے ہٹ گئی اور دہشت گرد اسکول میں داخل ہو گئے، اسکول کے پیچھے گشت پر موجود فورس جلتی ہوئی گاڑی کی جانب چلی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سیکیورٹی پر تعینات اہلکار نہ صرف آنے والے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پر تھی جبکہ اسکول کے پچھلے حصے پر کوئی سیکیورٹی تعینات نہیں تھی، پچھلے گیٹ سے دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوئے، سیکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشت گردوں کو روکنے کیلئے ناکافی تھی۔


واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا ہے، رپورٹ پر اٹارنی جنرل کے کمنٹس بھی پبلک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ امان اللّٰہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے، المیہ ہے کہ چھوٹے لوگوں کو ذمے دار قرار دے دیا جاتا ہے، بڑوں سے کچھ پوچھا نہیں جاتا، یہ روایت ختم ہونی چاہیے، وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے حاصل کیا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل سن لیں کہ متاثرین کیا چاہتے ہیں، آپ کو سزا اوپر سے شروع کرنا ہو گی، سیکیورٹی اداروں کے پاس اطلاعات تو ہونی چاہیے تھیں، جب عوام محفوظ نہیں تو بڑی سیکیورٹی کیوں رکھی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے یہ بھی کہا کہ جو سیکیورٹی کے ذمے دار تھے ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، اتنا بڑا سکیورٹی لیپس کیسے ہوا؟ حکومت کو ایکشن لینا چاہیے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

تازہ ترین