رواں ماہ اپنی زندگی کے 69 ویں سالگرہ منانے والے مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں عبوری درخواست ضمانت مسترد ہونے پر لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کرلیے گئے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور تفصیلی دلائل سننے کے بعد ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔ نیب اہلکاروں نے ضمانت منسوخ ہوجانے کے بعد شہباز شریف کو احاطۂ عدالت سےحراست میں لے لیا۔
اپنی سیاسی زندگی میں چوتھی اور موجودہ دور حکومت میں دوسری مرتبہ گرفتار ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف تحریک انصاف حکومت میں تقریباً ساڑھے اٹھارہ ماہ قبل ہی ضمانت پر رہا ہو ئے تھے۔
اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو سیاست میں گرما گرمی اور حزب اختلاف میں گرفتاری پاکستانی سیاسی تاریخ کا لازمی جزو ہے۔ اس صورت حال سے ہمارے اکثر رہنما گزر چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی موجودہ گرفتاری بھی ہماری اس ہی تاریخ کا تسلسل نظر آتا ہے۔
انکی پہلی گرفتاری، آج سے 25 برس قبل چار نومبر 1995 کو اسوقت ہوئی جب وہ 44 برس کے تھے اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ وہ اس روز ڈیڑھ برس بغرض علاج برطانیہ میں رہنے کے بعد جب لاہور ائیرپورٹ پہنچے تو ایف آئی اے نے انہیں حراست میں لے کر خصوصی طیارے میں اسلام آباد پہنچا دیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قریباً 10 کروڑ روپے کا قرضہ منظور کرایا۔ جس کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے روایتی حریف کے طور پر آمنے سامنے تھے۔
اس موقع پر ائیرپورٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ن لیگ کے کارکنوں میں پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ شہباز شریف پہلی مرتبہ تقریباً پانچ ماہ سے زائد زیرحراست رہنے کے بعد 17 اپریل 1996 کو لاہور ہائیکورٹ سے مقدمات میں درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے تھے۔
انکی دوسری گرفتاری، قریباًساڑھے تین برس بعد 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت ہوئی جب وہ پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز تھے اور یہ انکی چیف منسٹرشپ کا آخری دن بھی ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم میاں نوازشریف کی حکومت برطرف کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف، خاندان کے دیگر افراد اور اپنی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور قریباً 14ماہ زیرحراست رہنے کے بعد 9 دسمبر 2000 کو ایک معاہدے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب جلا وطن ہوگئے تھے۔
انکی تیسری گرفتاری، موجودہ حکومت کے قیام کے قریباً 37 روز بعد 5 اکتوبر 2018 کو عمل میں آئی، وہ اس مرتبہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ انہیں نیب نے کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کو گھر فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار کیا تھا۔ قریباً 130 دن زیرحراست رہنے کے بعد 14 فروری 2019 کو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت ملنے پر وہ رہا ہوئے تھے۔