شہناز رحمٰن
ادیب اور فنکار کی نظر، اگرچہ پوری دنیا کے معاملات و مسائل پر ہوتی ہے لیکن جس معاشرے میں وہ زندگی گزارتا ہے، اس کی تحریروں پر اس معاشرے کا عکس غالب نطر آنا فطری ہے۔ فکشن کا بیانیہ صحا فتی بیان سے قطعی مختلف ہو تا ہے، ا س لیے اردو فکشن میں قومی اور علاقائی سطح پر ہونے والے مسائل کو عالمی مسائل سے علیحدہ کر کے دیکھنے کی کوشش فکشن کے بر خلاف ہو سکتی ہے۔
آج انسانی زندگی سے جو مسائل جڑے ہوئے ہیں ان میں غربت،، تشدد، ہجرت، پناہ گزینی ، تنازعے،مہلک امراض،نیو کلیائی ہتھیار، بچوں کی مزدوری، غذائیت کی کمی، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلی، کثافت، جنگی جرائم، نسلی امتیاز اور مذہبی و ثقافتی تصادم بہت اہم ہیں۔ ان مسائل کی تفہیم کی کئی سطحیں ہیں،جہاں سماجی و سیا سی سطح پر ان مسائل پر غور و فکر کیا جاتاہے۔وہیں حساس اور باشعور فنکار بھی ادبی و ثقافتی سطح پر ان مسائل کی تفہیم کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
عالمی ادبیات میں بھی بیشتر مسائل زیر بحث رہے ہیں اور ان کے تعلق سے مضامین، افسانے، ناول لکھے جاتے رہے ہیں۔ ہمارے بیشتر ادبا ءانسانی ہمدردی کے احساس کے تحت ان مسائل پر نہ صرف غور کرتے رہے ہیں بلکہ اس معاشرے کی بیداری کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ۔مغرب میں بہت سے ناول اور افسانے ان ہی مسائل پر لکھے گئے ہیں۔اردو زبان و ادب میں بھی انسانی حیات و کائنات کے بنیادی مسائل پر ما ضی میں بھی گفتگو ہوتی رہی ہے اور حال میں بھی مکالمہ جاری ہے۔ادیب عالمی شعور رکھتا ہے، اسی بنا پرغربت،،تشدد ہجرت اور نسلی امتیازات مذہبی تصادم وغیرہ کے تعلق سے بہت سے افسانے لکھے گئے اور اب بھی لکھے جا رہے ہیں۔
اردو شعر و ادب کی کوئی صنف ایسی نہیں جو عالمی مسائل کا احاطہ نہ کرتی ہو، خواہ وہ شعری اصناف ہوں یا نثری۔ قدیم ادبیات پر نظر ڈالیں تو بڑی حد تک وہاں بھی ایسے مواد کی دریافت ہو سکتی ہے جو اس عہد کے بقدر عالمی مسائل سے تعلق رکھتاہو۔اردو شاعری خصوصاً اردو کی نئی نظم میں شروع سے لے کر اب تک پوری دنیا میں رونما ہونے والے مسائل پر مختلف انداز سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے لیکن نثری اصناف یعنی خود نوشت،آب بیتی، سفرنامے، رپوتاژ اور صحافتی تحریروں میں تجربات کے بیان کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے اردو کے کئی سفرنامے ایسے ہیں، جن کے ذریعےسماجی و معاشرتی احوال، ان کے مسائل و مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔
زندگی کے حقیقی احوال کا احاطہ کرنے والی اصناف میں مصنف اور قاری کے رد عمل کی گنجائش محدود ہوتی ہے، جبکہ فکشن میں واقعات،کردار اور مقامات تصوراتی اور تخیلاتی ہوتے ہیں، اسی لیے اس کے واقعات آفاقی پہلو رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ فکشن میں بیان کردہ مسائل میں غیر جانب داری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اردو فکشن میں عالمی مسائل کی کا رفرمائی شروع سے ہی رہی ہے۔مارکسزم،سوشلزم،انقلاب روس،کوریا کی جنگ، ہیرو شیما کی تباہی،عالمی جنگیں پوری دنیا کے ممالک پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوئی تھیں۔
ان کے اثرات نے یورپ کی مادہ پرست اقوام کو نئے سر ے سے سوچنے پر مجبورکر دیا تھا، اس لیے بعض جگہ اخلاقی انقلاب کی ضرورت محسوس کی گئی ۔عوام پر اس جنگ کی وجہ سے سیاسی بیداری پیدا ہوئی ۔ادیب و فنکار پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کو شوکت صدیقی نے ناول ’کمین گاہ ‘،قرۃ العین حیدر نے ’آگ کا دریا ‘ میں بیان کیا ہے۔اس وقت اقتصادی بدحالی بیشتر ممالک کا عام مسئلہ تھی ،جس کا اظہار اردو فکشن میں کثرت سے ملتاہے۔انتظار حسین کا ناول’ ’بستی‘‘ انسانی ایجادات کی تمدنی تاریخ سے شروع ہوکر پاکستان کے قیام تک رونما ہونے والے حالات کا احاطہ کرتا ہے،جس میں 1971 کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔عبد اللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں ‘ ایک مخصوص انداز میں عالمی مسئلے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
مصنف نے ماضی کے پس منظر میں حال کے واقعات و مسائل کو دور رس بنانے میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے، ورنہ اخباروں کے ذریعہ ہر روز کئی ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جو تواتر کے ساتھ پوری دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں پیش آتے ہیں، جن سے وقتی اذیت تو ہوتی ہے لیکن پھروہ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں،مگر عبد اللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘، انتظار حسین کے ناول ’آگے سمندر ہے‘شوکت صدیقی کے ’جانگلوس‘ جیسے واقعات ذہن پر مرتسم ہو جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مضطرب کرتے ہیں۔ ’جانگلوس ‘ میں شوکت صدیقی نےNight of the great suspence اور قیصر تمکین نے افسانہ ’اندھیری روشنی‘ میںMystery party کے حوالے سے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس وقت پوری دنیا میں عام ہو چکا ہے۔ جنگو ں کے تناظر میں لکھے گئے ناول اور افسانوں میں غربت، بھوک، دربدری، عزت و انا کی قربانی، تشدد، ہجرت جیسے مو ضوعات کثرت سے سامنے آئے۔احمد ندیم قاسمی نے ’ہیروشیما سے پہلے ہیروشیما کے بعد ‘ ’ بابا نور ‘اور سپاہی بیٹا، رضیہ سجاد ظہیر نے امن عالم سے متعلق ’نیلی گھڑی ‘جیسے افسانے تحریر کیے۔ ایٹمی جنگوں کے پس منظر میں حیدر قریشی کے افسانے ’حوا کی تلاش ،‘ ’گلاب شہزادے کی کہانی ‘ اور ’کاکروچ ‘ اہم ہیں۔
سمندری ساحلو ں پر Mangrove forest ناپید ہوتے جارہے ہیں،سونامی کی تباہیوں کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ Mangrove جھاڑیاں جو پانی روکنے کے لیے قدرتی ڈھال بنتی تھیں وہ انسانی ہوس کی نذر ہوگئیں۔ ڈاکٹر نجمہ محمود کے افسانے ’جنگل کی آواز‘ میں اس مسئلہ کے خلاف احتجاجی آواز سامنے آئی۔ اپنے اس افسانے کے ذریعہ مصنفہ نے تقریباً تمام عالمی مسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہےاور یہ باور کرایا ہے کہ شجر، حجر، معدنیات، ہوا، پانی، حیوانات، چرند پرند اور خود انسان اس ماحول کا حصہ ہے۔ ان تمام مخلوقات کا فطری انداز میں ہونے اور اپنے مدار میں روبہ عمل رہنے سے کائنات کا توازن بہتر رہ سکتا ہے۔
فہمیدہ ریاض کا ناول ’کراچی ‘ کا پس منظر، اگر چہ شہر کراچی ہے لیکن بعض واقعات ایسے بھی ہیں جو اس شہر کے علاوہ پوری دنیا کے کسی بھی شہر سے وابستہ کیے جا سکتے ہیں۔مجرم کی قانونی پشت پناہی،پولیس محکمہ کی بدعنوانی،سیاست دانوں کی عیاری،شہریوں کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی نا انصافی،اشتہار بازی کی بنیاد پر پھیلائی جانے والی صارفیت،جنسی،اخلاقی اور معاشی جرائم،بے ایمانی، بد عنوانی، جیسے مسائل صرف ’کراچی ‘نہیں بلکہ بیشتر ممالک کے ہر دوسرے شہر میں آئے دن رونما ہوتے ہیں۔
اسلم جمشید پوری کا افسانہ ’پانی اور پیاس ‘پانی کی طلب، شدت اورمستقبل میں پانی کی کمی پر سامنے آنے والی اذیت ناک صورتحال کی پیشگوئی سے عبارت معلوم ہوتا ہے۔
ادبی تخلیق کی بنیادی ترجیح منفی رویوں کے خلاف احتجاج اور مثبت افکار و خیالات کی ترسیل ہوتی ہے۔اس قبیل کے افسانوں میں ذکیہ مشہدی کا افسانہ ’لاٹھیوں والے ‘ محمد حمید شاہد کا ’’جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی‘ ‘اور ابرار مجیب کا افسانہ’ ’جنگ بند‘ ‘ اہمیت رکھتے ہیں۔
جنگوں،بم دھماکوں، زہریلی گیسوں، ایٹمی ہتھیاروں، آلودہ پانی، سیلابوں، سونامیوں اور ماحولیات کی دوسرے تخریب کاریوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبر آزما ہونے کے لیے غریب عوام کے پاس اتنی مالی فراوانی نہیں ہوتی کہ اپنی مدافعت کر سکے، جبکہ اہل زر اپنے پیسوں کے بل بوتے پہ بآسانی مدافعاتی انتظامات کر لیتے ہیں۔معاش کا یہ مسئلہ پوری دنیا کے عوام کے سامنے درپیش ہے اور ایشیائی ممالک میں کچھ زیادہ ہے۔
یوں تو عالمی مسائل پر مبنی فن پاروں کی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے لیکن عالمی مسائل کی شمولیت،اس پر مبنی پلاٹ کی ترتیب،کرداروں کے درمیان مکالمے اور فضا سازی کا مرحلہ اتنا آسان نہیں کہ ہر مصنف اسے فن کاری سے نبھا سکے۔