• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’گیت‘‘ غزل کی طرح اس میں بھی شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہوتا ہے

ڈاکٹر آفتاب

 گیت اپنے منفرد تہذیبی ورثے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے، جس میں محبت اور نغمے کی آمیزش سے پیدا ہونے والی نہایت لطیف و دل کش روایت شامل ہے چونکہ گیت کا موسیقی سے گہرا ربط ہے ،ترنم اور لے اور جھنکار اور تھاپ وغیرہ اس کے گائے جانے میں استعمال ہوتے رہے ہیں،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گیت پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے۔ جو موسیقی کے ساتھ نمودارہوتا ہے۔بقول شمیم احمد :’’ گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔

گیت کی کوئی خاص ہیئت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی ہیئت میں لکھا جاسکتا ہے۔ ویسے عموماً گیت کا مکھڑاہوتا ہے جو دراصل گیت کا پہلا شعر یا پہلا مصرع ہوتا ہے۔

کبھی کبھی گیت کا مکھڑا ایک بحر میں اور بول مختلف بحر میں ہوتے ہیں۔ گیت کے تمام بند خیال یا مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ اس لئے بھی کہ پورے گیت میں ایک ہی خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔گیت کے بند میں بھی مصرعوں کی کوئی متعین تعداد نہیں ہوتی۔ کسی گیت میں ہر بند میں چار چار مصرعے ہو سکتے ہیں تو کسی میں تین تین مصرعوں کے بند بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر بند کے بعد گیت اپنے مکھڑے کو دوہرانے کے لئے فضا ہموار کرتا ہے۔یہ مصرع مکھڑا کا ہم وزن بھی ہوسکتا ہےاوا اس سے کچھ چھوٹا یا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں کہیں ایک ہی مصرعے کو توڑ کر دوسطروں میں لکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کی گیت کی ہیئت میں بڑی لچک ہوتی ہے۔گیت کی ہیئت کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیت کا مکھڑا ( جو کسی بھی صورت حال میں ہو سکتا ہے۔ مصرعہ آدھا مصرعے یا شعر ) وہ گیت کے ہر بند کے بعد دوہرایا جاسکتا ہے۔

غزل کی طرح گیت بھی شاعری کی ایک داخلی اور غنائی صنف ہونے کی وجہ سے شخصی جذبات و احساسات کا بے تکلف اور والہانا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں محبوب سے جدائی کی تڑپ اور وصال کی آرزو مندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان معنوں میںگیت ایک فراق زدہ عورت کے دل کی صدائے پُر سوز ہے،چونکہ گیت اور سنگیت کا چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے اس لئے سازوں کی آمیزش گیت کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔دلی میں محمد شاہ رنگیلے کے دربار میں راگ رنگ کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں۔وہ موسیقی کے ساتھ گیت نگاری سے بھی دلچسپی رکھتاتھا۔ 

اس کے دربار سے وابستہ شاعروں نے زیادہ تر ٹھمریاں ، خیال اور دادر جیسی چیزیں لکھیں جو مختلف راگوں پر گائے جانے کے لیے تھیں۔اردو میں گیت کی روایت امیرخسرو کے عہد سے مانی جاتی ہے۔ امیر خسرو نے راگ راگنیوں کے ساتھ گیت کو پروان چڑھانے کے لئے راگوں کو ایجاد بھی کیا۔ امیر خسرو کے عہد سے تا حال اردو میں جو گیت لکھے گئے اس کا خاص موضوع عشق، جدائی، غم اور ملن کی خوشی سے گیت بھرے پڑے ہیں۔قطب شاہی اور عادل شاہی حکومتوں کے دور میں شاعری میں دیسی اور مقامی رنگ زیادہ نمایاں ہے۔اس دور کی غزلوں میں گیتوں کا رنگ واضح طور پر نظرآتا ہے۔ اس دور کے بعض شعراء کے یہاں ایسی تخلیقات ملتی ہیں، جن کو ہم اردو گیت کے ابتدائی نمونے کہہ سکتے ہیں۔

بسنت کھیلیں عشق کی آپیارا

تمہیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا

بسنت کھیلیں ہمن ہور سا جنایوں

کہ آسماں رنگ شفق پایا ہے سارا

(محمد قلی قطب شاہ)

بیسویں صدی تک آتے آتے گیت نے اپنا قدم اردو شاعری میں مستحکم کرلیا۔بیسویں صدی میں جن شاعروں نے گیت لکھے ان میں حسرت موہانی، آرزو لکھنؤی، سوامی مار ہردی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، خاطر غزنوی، قتیل شفائی، عبدالمجید بھٹی، جمیل الدین عالی اور مسعودحسین خاں کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ چند منتخب شعراء کے گیتوں کے نمونے ملاحظہ کریں:

دیکھت دیکھت بدر یا کاری

موپہ رنگ نہ ڈارو مراری

بنتی کرت ہوں تہاری

پنیا بھرن کا ہے جانے نہ دَیٔ ہیں

شیام بھرے پچکاری

تھر تھر کا پنت لاجن حسرتؔ

( حسرت موہانی )

موہے چاندی کی پائل منگادو سجن

خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں کیا چلوں

اپنی سکھیوں کو دیکھوں تو من میں جلوں

وہ تو ناچیں میں شرما کے منہ پھیرلوں

موہے پنگھٹ کی رانی بنا دو سجن

( قتیل شفائی )

گیت چونکہ ہندی شاعری کی دین ہے، اس لئے اردو گیت بھی زیادہ تر ہندی بحروں میں لکھے گئے ہیں،مگر اردو کے بہت سے ایسے گیت بھی لکھے گئے ہیں ،جس میں نظم کی پیرائے میں ہیں ،جسے نظم نما گیت کہا جاتا ہے۔ ایسے گیتوں کا بھی ذخیرہ بھی اردو شاعری میں کافی ہے۔ نظم نما گیت لکھنے والے شعراء میں حفیظ جالندھری، اختر شیرانی وغیرہ نمایاں ہیں۔

تازہ ترین