یہ بھی حسیات سے تعلق رکھنے والی غیر مرئی خوبیوں میں سے ایک کیفیت ہے، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنے پر آئیں تو سمجھ نہیں سکتے۔
ماں کی محبت کے تعلق کو مامتا کہہ کر واضع نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں یا لٹریچر سے اس کی وضاحتیں ملتی ہیں، مامتا نہیں ملتی۔ جہاد پر جان سے گزر جانے والے بہادر کے جذبے کو اس وقت تک سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک آپ خود ایسی بہادری کا حصہ نہ بن جائیں۔ تعلق، زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے صبر کی مانند ایک ڈھال ہے۔ جب کبھی جہاں بھی سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، وہاں قناعت، راحت اور وسعت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کو اندر ہی اندر یہ یقین محکم رہتا ہے کہ “آپ کی آگ” میں سلگنے والا کوئی دوسرا بھی موجود ہے، دہرا وزن آدھا رہ جاتا ہے۔
(بانو قدسیہ کے ناول’’ حاصل گھاٹ‘‘ سے اقتباس)
………٭…٭…٭…٭…………
جو دانشور قوم کو مکمل مایوسی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتےہیں اور انہیں قوم میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی۔
وہ بلا ارادہ قوم کو موت کی دہلیز پر پہنچانے کی کوشش کرتےہیں۔ہم میں بہت سی خرابیاں ہیں ، ان خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستانی قوم کو خوبیوں کو بھی اجاگر کرتے رہنا چاہیے ۔مایوسی اگر انسان کو موت کی طرف تو امید زندگی کی طرف لے جا سکتی ،تو اس کلیے سے قومیں مستثنی نہیں ہیں۔تقدیر سے تو ہم لڑ نہیں سکتے مگر مایوسی کو مقابلہ ، امید سے کیا جا سکتا ہے۔
جب کوئی ایسا شخص لوگوں کو منفی کے بجائے مثبت سوچیں اپنانے کا مشورہ دے جس کی زندگی مثبت نتائج کی حامل نظر آتی ہو تو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
( عطا الحق قاسمی کی ’’روزنِ دیوار‘‘ سے اقتباس)