٭…اسعد بدایونی…٭
بڑے نادان تھے ہم ریت کو آب رواں سمجھے
کھجوروں کے درختوں کو گھنیرا سائباں سمجھے
چمن میں میرے آنسو تھے جنہیں شبنم کہا سب نے
فلک پر میری آہیں تھیں جنہیں سب کہکشاں سمجھے
کبھی تجھ کو غبار رنگ میں کوئی کرن جانا
کبھی تجھ کو گرفت سنگ میں جوئے رواں سمجھے
کسی بے مہر صبحوں کو عطا کی روشنی ہم نے
کئی نا مہرباں راتوں کو بھی ہم مہرباں سمجھے
خزاں کے شہر میں بس میں بہاروں کی علامت تھا
مرے زخموں کو سب پھولوں کی نازک پتیاں سمجھے
سبھی کو دے رہا تھا وہ دعا جینے کی صدیوں تک
ہمارے شہر کے سب لوگ اس کو بد زباں سمجھے
تھکے بیٹھے تھے کچھ پنچھی لب دریا جنہیں اسعدؔ
ہم اپنی پر شکستہ خواہشوں کا کارواں سمجھے