فن کار دُنیا سے چلا جاتا ہے، مگر اس کا فن اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔ دُنیا فانی ہے، ایک دِن سب کو چلے جانا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں پنجابی فلموں کی ہیر’’ فردوس‘‘ کے بعد30 جنوری ہفتہ کےروز پورے ملک میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی اور نشر کی گئی کہ ماضی کی نامور سینئر اداکارہ نیلو وفات پاگئیں۔ اس خبر کے بعد الیکٹرک میڈیا، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر مرحومہ سے متعلق ان کے فنی کیریئر کے بارے میں خبروں کی صورت میں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، کئی روز تک جاری رہا۔
نیلو نے پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک بہت ہی یاد گار دور گزارا،شہرت کی بلندیوں کو چُھوا، مختلف فلموں میں ایک سے بڑھ کر ایک کردار ادا کیے، ہر کرادار میں ڈوب کر اداکاری کی اور فلم بینوں کے دِل جیتے۔ ان کے فلمی کیرئیر کا آغاز 1955ء میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی فلم ’’بھوانی جیکشن‘‘ سے ہوا، جس کی شوٹنگ لاہور میں بھی ہوئی تھی ۔
اس انگریزی فلم میں وہ بہ طور ایکسٹرا لیڈی پریس رپورٹر کے مختصر کردار میں نظر آئیں۔ اس فلم میں کام کرنے کے بعد پروین الیگزینڈر کو اداکارہ بننے کا بھوت سوار ہو گیا اور وہ لاہور کے نگارخانوں میں پہنچ گئیں۔ 1956میں ہدایت کار ایم جے رانا کی پنجابی فلم ’’ماہی منڈا‘‘ میں انہیں بہ طور ایکسٹرا گرل کاسٹ کر لیا گیا۔ فلم کے اس سپرہٹ گانے میں۔’’ انا والیاں دے پکن پر وٹھے‘‘ جو نامور اداکار ظریف فلمایاگیا تھا۔ اس گانے میں نیلو بہ طور ایکسٹرا لڑکی کے مختصر سین میں دکھایا گیا۔ اسی سال نمائش ہونے والی ایک اور پنجابی فلم ’’دُلابھٹی‘‘ میں انہیں ایک درباری کنیز کا مختصر کردار بھی مِلا۔
پروین الیگزینڈر کو اپنے دور کے معروف اداکار فلم ساز اور ہدایت کار نذیر نے اپنی فلم صابرہ میں پہلی بار ’’نیلو‘‘ کے نام سے کاسٹ کیا ۔ یہ فلم کوئی قابلِ ذکر کام یابی تو حاصل نہ کر سکی، لیکن اس فلم سے ’’نیلو‘‘ کو ایک ایسی فلم مل گئی، جس نے انہیں صحیح معنوں میں پہچان دی، وہ ہدایت کار جعفر ملک کی سپر ہٹ فلم ’’سات لاکھ ‘‘ تھی، جس میں نیلو نے ایک پہاڑی دوشیزہ کا کردار ادا کیا تھا اور اس فلم میں ان پر فلمایا ہوا سدا بہار گیت’’آئے موسم رنگیلے سہانے‘‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا تھا،اس زمانے میں گانے کے ساتھ نیلو کا ذکر بس ہر جگہ ہر بزم میں ہونے لگا۔ یہ فلم 1957 میں ریلیز ہوئی تھی۔ ’’سات لاکھ‘‘ سے جو شہرت انہیں ملی، اس نے دیگر فلم سازوں کو بس نیلو کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کے لیے مائل کیا۔ یہ وہ دور تھا، جب اداکارہ مسرت نذیر ، صبیحہ خانم، نور جہاں، جیسی بلند پایۂ اداکارائیں ہیروین کے کردار فلموں میں کر رہی تھیں۔ نیلو کو ان صفِ اول کی ہیروئنوں کے ساتھ ثانونی کرداروں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔
فلم نیند، کوئل ، پاسبان، جانِ بہار، زیر عشق، یکے والی، آخری نشان، یار بیلی، ایاز ، اسٹریٹ 77، آنکھ کا نشہ، سردار، سلطنت، نغمہ ٔ دل، پھولے خان، اور جٹی میں انہوں نے سائیڈ ہیروئن کے کردار کیے۔ 1958میں نمائش ہونے ہدایت کار امین ملک کی پنجابی فلم کچی کلیاں میں پہلی بار اداکار اسلم پرویز کے مدِمقابل سولو ہیروئن کی حیثیت سے سامنےآئیں۔ یہ فلم عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں تو ناکام رہی، لیکن ’’نیلو‘‘ کو بطور ہیروئن متعارف کروانے میں کام یاب ہوگئی۔ 1959میں ہدایت کار خلیل قیصر کی میوزیکل کاسٹیوم فلم ’’ناگن‘‘ نے نیلو کو صفِ اول کی ہیروئن بنا دیا تھا۔
اس فلم میں ان کے مدِ مقابل اداکار رتن کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔نیلو نے اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں کام یابی حاصل کی۔ اردو فلموں میں وہ سپر اسٹار محمد علی، اعجاز، حبیب، رتن کمار، کمال، درپن اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے ساتھ پسند کی گئیں، تو پنجابی فلموں میں سدھیر، اعجاز، حبیب ، یوسف خان، سلطان راہی اور اکمل جیسے نامور اداکاروں کے ساتھ کام یاب رہیں۔
ماضی کی یہ کام یاب اور نامور اداکارہ نیلو 24جون 1942کو سرگودھا کے قصبے بیڑہ کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام راج اور والد کا نام الیگزینڈر فرنینڈس تھا، سنتیھا الیگزینڈر جو پروین الیگزینڈر بن کر فلمی دنیا میں آئیں اور پھر نیلو بن کر شہرت کے مقام پر پہنچی۔ نیلو کی ایک بہن نے معروف فوٹو گرافر بابر سے شادی کی، جو اب ان کی بیوہ بن کر ملک سے باہر رہ رہیں ہیں۔ ان کا ایک بھائی ارشاد الیگزینڈر بھی تھا، جو نیلو کے ساتھ اکثر اسٹوڈیو میں آتا تھا۔
معمولی ایکسٹرا سے ہیروئن بننے کا سفر نیلو نے بڑی جدوجہد کےساتھ طے کیا، جن دنوں وہ ہدایت کار جعفر شاہ بخاری کی فلم انجام میں سائیڈ ہیروین کا کردار کر رہی تھیں، تو مایۂ ناز فلم ساز مصنف ہدایت کار شباب کرانوی نے اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ کے لیے بطور ہیروئن نیلو کا آڈیشن لیا اور انہیں فیل کردیا اور دعویٰ کیا کہ یہ لڑکی کبھی ہیروئن نہیں بن سکتی۔ ہدایت کار خلیل قیصر کی فلم ’’ناگن‘‘ میں نیلو نے ہیروئن بن کر ان کی اس پشن گوئی کو غلط ثابت کیا۔
نیلو کی کام یابی میں جہاں ان کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا، تو وہاں ان کی بے باک اداکار اور دل کش رقوص کا بھی بڑی حد تک عمل دخل رہا۔ ابتدائی دور میں متعدد ایسی فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں، جو ان کے نِسوانی حُسن اور دل کش خدوخال کی وجہ سے کام یاب اور پسند کی گئیں۔ نیلو، بہ طور ہیروئن جب باکس آفس پر وہ کام یاب ہو گئیں تو زیادہ تر ہدایت کار انہیں اپنی فلموں میں گلیمرس کے طور پر کاسٹ کرنے لگے۔ 60ء کی دہائی میں مسرت نذیر نے شاید کے بعد فلمی دنیا ترک کر دی تو نیلو ، مسرت نذیر کا بہترین نعم البدل ثابت ہوئیں۔
نیلو کو اس دور میں کردار نگاری سے زیادہ فلموں کی ڈیکوریشن اور کمرشل ازم کو مد نظر رکھتے ہوئے کردار سوپنے گئے۔ 1964 میں ہدایت کار رضا میر نے پہلی بار اپنی گھریلو سوشل فلم بیٹی میں انہیں ایک ایسی ماں کا کردار سونپا، جس نے اپنے گھر کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو گمنامیوں کی نظر کر دیا ۔ اس فلم میں انہوں نے ایک اداکارہ کا کردار کیا تھا۔ اعجاز نے ان کے خاوند کا کردارکیا، جب کہ بیٹی کا کردار چائلڈ اسٹار گھٹو نے کیا تھا۔ یہ اپنے دور کی سپر ہٹ فلم تھی، جس میں نیلو نے اپنی جذباتی کردار نگاری سے پہلی بار فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔
اس کردار میں اعلیٰ اداکاری کرکے انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ ہر طرح کے کردار کر سکتی ہیں۔1966 میں پنجابی فلم نظام لوہار کی تکمیل کے دوران وہ فلم ساز ، ہدایت کار اور مصنف ریاض شاید کی نظروں میں ایسی سما گئیں کہ دونوں نے شادی کر لی، نیلو نے اس شادی کے لیے اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئیں۔ عابدہ ریاض بن کر وہ ریاض شاہد کے نکاح میں آگئیں۔ ریاض شاید سے ان کے تین بچے زرقا، اعجاز اور ارمغان المعروف شان پیدا ہوئے۔1969 میں ریاض شاہد کی شہرہ آفاق فلم زرقا نے نیلوکو ایک تاریخ ساز اداکار بنا دیا تھا۔
کراچی کے سابق اوڈین سینما میں یہ فلم ایک سو دو ہفتے چلی، اس طرح نیلو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کی ہیروئن کہلائیں۔ فلسطین کی آزادی کے موضوع پر بننے والی اس قابل فخر پروپیگنڈہ فلم کو نہ صرف پاکستان میں کام یابی ملی، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اس کو پسند کیا گیا۔نیلو کے حُسن نے ریاض شاہد کے ذہین کے اس احساس کو مرتب کیا، جس نے اسے ایک ایسی فلم بنانے کے لیے آمادہ کیا، جو تاریخ میں اس کےقلم و ذہن کا نام بلند کرے۔ یہی وہ خیال تھا، یہی وہ جذبہ تھا، جو فلم ’’زرقا‘‘ کی تخلیق کا باعث بنا۔ زرقا کا عظیم کردار کرنے والی آج نامور اداکارہ ہم میں نہ رہیں اور دنیا سے رخصت ہوگئیں، لیکن اپنی اس فلم اور کردار کی صورت میں وہ ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہیں گی۔
’’رقص زنجیر پہن کر بھی‘‘ حبیب جالب کےاس انقلابی نغمے کی شہرت پہلے ہی ان کی ایک نظم کی صورت میں لوگوں کی ذہن میں موجود تھی، یہ نظم جالب نے خاص طور پر ایوب خان کے دور کے میں اداکار نیلو کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی تھی، جسے بعد میں ریاض شاہد نے اپنی شہرہ آفاق فلم میں شامل کیا۔
ریاض شاہد اور نیلو کے بارے میں یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر ریاض شاہد کی زندگی میں نیلو قدم نہ رکھتیں تو وہ ’’زرقا‘‘ جیسی عظیم فلم کبھی تخلیق نہ کرسکتے، کیوں کہ حسن و ذہانت جب ایک دوسرے سے یکجا ہوجائیں اور دونوں شریک سفر بھی ہوں، تو منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتاہے۔ ریاض شاہد کاذہن اور نیلو کا حُسن یکجا ہوا تو’’زرقا‘‘ جیسی بلاک بسٹر فلم بنی ۔