• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائٹ ہائوس کے اُسی کمرے میں جہاں 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا، گزشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’یکم مئی 2021سے افغانستان میں تعینات امریکی افواج کا انخلا شروع ہوجائے گا اور 11ستمبر کو نائن الیون کے 20سال مکمل ہونے پر افغانستان سے تمام امریکی افواج نکل جائیں گی کیونکہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف مکمل کرلئے ہیں اور اب وہاں امریکی افواج کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں۔‘‘ یاد رہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعد اکتوبر 2001میں امریکہ نے یہ جواز بناکر افغانستان پر حملہ کیا تھا کہ 9/11حملے میں ملوث اسامہ بن لادن اور دیگر القاعدہ رہنمائوں کوطالبان حکومت نے پناہ دے رکھی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو پچھلے سال امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ ورثے میں ملا تھا جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طے پایا تھا۔ معاہدے کی رو سے واشنگٹن نے طالبان سے یہ گارنٹی لی کہ مستقبل میں افغان سرزمین سے نائن الیون جیسے واقعات نہیں ہوں گے اور اس یقین دہانی پر اپنی افواج نکالنے کا وعدہ کیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ نیٹو افواج بھی افغانستان چھوڑ دیں گی۔ واضح رہے کہ افغان جنگ کے دوران اب تک 2500سے زائد امریکی فوجی ہلاک اور 20ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001میں جنگ کے آغاز سے اب تک افغانستان میں امریکہ کے مجموعی فوجی اخراجات 822ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

امریکی صدر جوبائیڈن کے حالیہ اعلان کے بعد خطے میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے اور افغانستان جسے پہلے ہی دنیا کا پرتشدد ملک کہا جاتا ہے، امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کیلئے بھی ایک ڈرائونا خواب ہے۔ اگر انخلا کے بعد افغانستان میں حصول اقتدار کیلئے 90کی دہائی کی خانہ جنگی کی تاریخ دہرائی گئی تو اس سے نہ صرف پاکستان شدید متاثر ہوگا بلکہ اس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ جس کا عندیہ حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ”غیر ملکی افواج کا انخلا افغانستان کیلئے ایک تاریخی پیشرفت اور پاکستان کیلئے فیصلے کا دن ہے، اگر افغانستان غیر مستحکم ہوا تو پاکستان بھی عدم استحکام کا شکار ہوگا۔“اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی میں پاکستان کو انتہا پسندی کی سب سے بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان میں موجود تربیت یافتہ انتہا پسند جہادی یقیناً اس خانہ جنگی کا حصہ بنیں گے جس کے نتیجے میں افغان مہاجرین کے پاکستان کا رخ کرنے سے خطے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے اور پاکستان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ایک بار پھر افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرسکے۔

بھارت، افغانستان میں بدلتی صورتحال اور امریکی و اتحادی افواج کے انخلا سے بالکل خوش نہیں۔ بھارت اکثر یہ دعوے کرتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے انفراسٹرکچر میں 3ارب ڈالر سے زائد کی انویسٹمنٹ کرچکا ہے جس پر امریکی صدر ٹرمپ کو ایک بار یہ کہنا پڑا کہ ’’مودی اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں کئی لائبریریاں قائم کی ہیں مگر اِن لائبریریوں میں پڑھنے کون جاتا ہے؟‘‘ آج بھارت کو افغانستان میں اپنی تمام انویسٹمنٹ ڈوبتی نظر آرہی ہے اور وہ اتنی آسانی سے افغانستان، طالبان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بھارت مستقبل میں طالبان کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔ بھارت کو یہ بھی تشویش ہے کہ پاکستان، افغان عمل کو اپنے مفاد میں استعمال کرے گا اور طالبان چونکہ پاکستان کے زیر اثر ہیں، کے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کا افغانستان میں اثر و رسوخ ختم ہوجائے گا اور خدشہ ہے کہ کہیں طالبان اقتدار حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ نہ مل جائیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ آج کے طالبان 90 کی دہائی کے طالبان سے بہت مختلف ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کا انحصار صرف پاکستان پر نہیں ہوگا کیونکہ اب طالبان کو عالمی سطح پر قبول کیا جاچکا ہے اور اُن کا قطر میں بھی آفس قائم ہے۔ پہلے طالبان کا انحصار صرف پاکستان پر تھا مگر اب پاکستان کے علاوہ طالبان کے کئی دوست بن گئے ہیں اور اُن کے اسپانسر بھی بڑھ گئے ہیں جبکہ طالبان رہنما روس، چین اور ایران سمیت کئی ممالک کے دورے کرچکے ہیں اور ان کی کئی عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ امریکہ کی نئی پیشرفت کے بعد دنیا کی نگاہیں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات پر مرکوز ہیں کہ کیا یہ مذاکرات کامیا ب ہوپائیں گے اور کیا افغانستان میں گزشتہ 4عشروں سے جاری جنگ اور بدامنی ختم ہوسکے گی؟ طالبان نے ایک بار امریکیوں سے کہا تھا کہ ’’افغانستان کی گھڑی تمہارے پاس ہے لیکن وقت ہمارے پاس ہے۔‘‘ طالبان نے آج یہ بات ثابت کردی ہے کہ آنے والا وقت اُن کا ہے مگر ایسے میں ایک طرف جب امریکہ اپنی سب سے طویل اور مہنگی ترین جنگ کا باب بند کرنے کی تیاری کررہا ہے تو دوسری طرف یہ خدشہ بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

تازہ ترین