• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے کلچر میں جوتوں سے متعلق بہت ساری رسوم رائج ہیں ۔ ان میں سے اکثر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود جوتے کی۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد ان رسوم نے ہمارے ہاں جتنا فروغ پایا اور جو پذیرائی حاصل کی اس پر خود جوتے بھی حیران ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ہمیں توہمات ،فضولیات ، مکروہات، لغو نظریات اور بیمار خیالات کے ساتھ ساتھ رسومات کا اسیر بھی کہتی ہے ۔ چیدہ چیدہ ”رسومِ جوتا“ ملاحظہ فرمائیے ۔ جوتیاں سیدھی کرنا: بنیادی طور پر رسم حامل جوتا کے احترام اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ادا کی جاتی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں یہ رسم اہل علم کے جوتوں سے متعلق تھی اور لوگ صاحبانِ علم و دانش کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن وقت کے تقاضوں کے ساتھ یہ رسم بدلتے بدلتے اہلِ ثروت و اقتدار کے جوتوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ آج کل اہلِ علم کے جوتے اسلئے بھی سیدھے نہیں کئے جاتے کہ وہ (اقتصادی وجوہ کی بنا پر) خاصے بوسیدہ ہوتے ہیں اور ان سے ہاتھ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ نیز اصحاب ِ علم و آگہی خود بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ مبادا جوتے سیدھے کرنے والا انہیں لے کر ہوا ہو جائے۔ جوتیاں چاٹنا: یہ رسم عام طور پر اس وقت ادا کی جاتی ہے جب کسی صاحبِ اختیار یا حامل جوتا سے غرض یا مفاد وابستہ ہو۔ مطلب حاصل کرنے کیلئے جوتیاں چاٹنا یا بدونِ سینگ ایک جانور کو باپ بنا لینا، ایک ہی مفہوم کی رسوم ہیں۔ رسم ہذا دربار داری کے تقاضے پورے کرنے کیلئے بھی ادا ہوتی ہے۔
جوتے چھپانا: یہ سب سے مقبول عوامی رسم ہے جو شادیوں سے لے کر مسجدوں تک بغیر کسی وقفے کے جاری ہے تاہم اس رسم کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں۔ دراصل جوتے اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگ ننگے پاؤں اپنی شادیوں اور مسجدوں میں جائیں گے۔ شائقین جوتا چھپائی میں سے کسی نے کیا خوب کہا ہے ”چل چلئے مسجد دی اس نکرے /جتھے جُتیاں دی لمبی قطار ہووے /اک توں چُک لے، اک میں چُک لاں /ساڈی عید بڑی مزے دار ہووے “۔
جوتے گھسانا: یہ خالصتاً عوامی رسم ہے۔ خواص کو اس سے پالا نہیں پڑتا۔ یہ رسم سرکاری دفتروں میں ادا کی جاتی ہے ۔ سائلوں کی درخواستیں سرکاری اداروں میں میز در میز رسوا ہوتی ہیں اور وہ ان دفاتر کے چکر پہ چکر لگا کر اپنی جوتیاں گھساتے رہتے ہیں۔ کبھی شناختی کارڈ حاصل کرنے کیلئے، کبھی بجلی کا بل ٹھیک کرانے کیلئے اور کبھی انصاف کے حصول وغیرہ وغیرہ کیلئے۔
جوتے چھوڑ کر بھاگنا:اس رسم کا تعلق عشاقِ عُظام سے ہے ۔ پیشہ ور عشاق کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ رسم ادا کرنا پڑتی ہے ۔ رسم مذکور کو دہرانے میں کیدو کی نسل کا کلیدی کردار ہے ۔ دو دلوں کے ملاپ کی تقریبِ سعید کے دوران کیدو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عاشقوں کو اپنے جوتے وہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔
جوتے کی نوک پر رکھنا: یہ بھی ایک قدیم رسم ہے اگرچہ نوکدار جوتے کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن رسم ہذا کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اس کا تعلق اربابِ اقتدار و اختیار سے ہے ۔ ان کے جوتوں کی نوکیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کے مسائل اور جذبات کا بوجھ بآسانی سہار سکتی ہیں۔ جوتے کے برابر سمجھنا: اغراض و مقاصد اور مفہوم میں یہ رسم، رسمِ بالا (جوتے کی نوک پر رکھنا) سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ رسم بھی خواص ہی ادا کرتے ہیں۔ عوامی مسائل اور مطالبات چاہے پہاڑ جتنے ہوں مگر اربابِ بست و کشاد انہیں حجم میں اپنے جوتوں کے برابر ہی سمجھتے ہیں ۔ جوتا بدلنا: یہ ایک مقبول عام رسم ہے ، جسے ہر خاص و عام اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرتا ہے۔ امیر آدمی نئے ڈیزائن آنے پر جوتا بدلتا ہے جبکہ غریب جوتا پھٹ جانے پر ایسا کرتا ہے ۔ بعض لوگ اس رسم کو دوسری شادی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
جوتے چلانا: یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب مذاکرات ناکام ہو جائیں ۔ جرگوں سے لے کر اسمبلیوں تک، جب مسائل گفت و شنید سے حل نہ ہو سکیں تو جوتے چل جاتے ہیں۔ اپنے موقف کے حق میں دلائل کی عدم دستیابی پر بھی یہ رسم ادا کی جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں جوتا ہی دلیل قرار پاتا ہے اور جوتا جتنا مضبوط ہو، دلیل اتنی ہی بھاری ہوتی ہے ۔ مذکورہ رسم کی ادائیگی سے قبل گالم گلوچ لازمی ہے۔
جوتے سنگھانا: مرگی کے دورے میں یہ رسم مفید تصور کی جاتی ہے۔ اکثر عامل حضرات مریضوں کو جن پڑ جانے پر جوتا سنگھاتے ہیں۔ اگر مریض کو افاقہ نہ ہو تو عامل یہ کہتے ہوئے اسی جوتے سے مریض کی مرمت شروع کردیتے ہیں کہ ”جن بہت طاقتور ہے“ حالانکہ جن یا بھوت کبھی بھی عاملوں سے طاقتور نہیں ہوتے ۔ اگر ایسا ممکن ہو تو جن وہی جوتا لے کر عامل صاحب کی خیر خیریت دریافت کرنا نہ شروع کر دے؟
جوتوں کی چاپ سننا:اس رسم کا اصلی نام ”بھاری بوٹوں کی چاپ “ سننا ہے ۔ جب وطن عزیز میں جمہوریت کا وقفہ طویل ہو جائے اور عوام اور سیاستدان خود کو با اختیار سمجھنے کے عارضے میں مبتلا ہونا شروع ہو جائیں تو ان کو اوقات میں رکھنے کے لئے یہ رسم ادا ہوتی ہے۔ جن خود ساختہ لیڈروں کو عوام روز ِ اول سے انتخابات میں مسترد کرتے چلے آئے ہیں وہ بے تابی سے اس رسم کی ادائیگی کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دال دلیے کا بندوبست ہو سکے ۔ ایسے لوگوں کو ہر وقت بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی رہتی ہے بلکہ ان کے نیک دل تو دھڑکتے ہی ان بوٹوں کی چاپ کی دھن پر ہیں۔
جوتے مارنا: اس رسم نے ہمارے ہاں گزشتہ66سالوں میں جو پذیرائی حاصل کی ہے، وہ کسی دوسری رسم کے حصے میں کم ہی آئی ہے ۔ قائداعظم کی ایمبولینس سڑک پر ”خراب“ ہونے سے لیکر بھٹو کی پھانسی تک، جسدِ فاطمہ جناح کے زخموں سے رسنے والے خون سے لے کر راولپنڈی کی سڑکوں پر بہتے بے نظیر کے خون تک اور مادرِ ملت کو صدارتی الیکشن ہرانے سے لے کر ق لیگ بنوانے اور اسے انتخابات میں کامیاب کرانے تک، لاتعداد جوتے اس قوم کے مینڈیٹ کے سر پر توڑے جا چکے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جوتے، انصاف کے نام پرجوتے، ترقی کے نام پر جوتے، روزگار کے نام پر جوتے، تعلیم کے نام پر جوتے ، سرکاری دفتروں میں جوتے، پولیس ناکوں پر جوتے، لوڈشیڈنگ کے جوتے، آٹا بحران کے جوتے، مہنگائی کے جوتے، بم دھماکوں کے جوتے، ٹارگٹ کلنگ کے جوتے…جوتے ہی جوتے…جوتے ہی جوتے۔
تازہ ترین