اقصیٰ منور، صادق آباد
حضرت عُمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں:’’ایک دن ہم رسول اللہﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے تھے کہ اچانک سفید لباس میں ملبوس ایک شخص آیا، اس کا لباس نہایت صاف ستھرا اورسر کے بال بالکل سیاہ تھے۔ ہم میں سے کوئی اسے نہیں پہچانتا تھا۔ بہرحال، وہ شخص آپﷺ کے قریب آکر بیٹھ گیا اور عرض کیا ’’یامحمدﷺ! مجھ کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں بتائیے!‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر تم بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہو، تو حج کرو۔‘‘ مسافر نے عرض کیا ’’بے شک، آپﷺ نے سچ فرمایا۔‘‘
حضرت عُمرؓ فرماتے ہیں ’’ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپﷺ سے سوال بھی کرتا ہے اور پھر جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔‘‘اس شخص نے پھر پوچھا ’’اے محمدﷺ! ایمان کی حقیقت کے بارے میں بتائیے!‘‘ آپﷺ نے فرمایا! ’’تم ایمان لائو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس بات کا یقین رکھو کہ بُرا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے، وہ سب کچھ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔‘‘ مسافر نے کہا ’’آپ نے سچ فرمایا۔‘‘
اس شخص نے پھر پوچھا ’’احسان کے بارے میں بتائیے!‘‘ آپ نے فرمایا ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو یہ دھیان رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ پھر اس شخص نے عرض کیا کہ ’’قیامت کے بارے میں بتائیں، کب آئے گی؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’اس بارے میں جواب دینے والا سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ مسافر نے کہا کہ ’’اس کی نشانیاں ہی بتادیں۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی، فقیر، بکریاں چرانے والے عالی شان عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔‘‘ حضرت عُمرؓ فرماتے ہیں، پھر وہ مسافر چلا گیا۔ مَیں نے تھوڑی دیر توقف کیا۔ آپﷺ نے خود ہی پوچھا کہ ’’اے عُمرؓ! جانتے ہو کہ یہ شخص کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ جبرائیل علیہ السلام تھے، جو تم کو دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیکھنے کا پہلا اصول، جو ابتدا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سکھایا، وہ ادب ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے جتنا علم ضروری ہے اتنا ہی اس علم پر عمل…! اور عمل تب ہی مقبول ہوتا ہے، جب ادب و آداب سے کیا جائے۔ یاد رکھیے، علم کی کمی ادب سے پوری ہوسکتی ہے، لیکن ادب کی کمی علم سے پوری نہیں ہوسکتی۔ اب چاہے ادب اللہ تعالیٰ کا ہو یا رسولِ خدا کا، صحابہ اکرامؓ کا ہو یا قرآنِ کریم کا، حرمین شریفین کا ہو، والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا ہو، زندگی اور عمل ادب ہی سے خُوب صُورت ہوتے ہیں۔
مشہور ہے ’’ادب محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ ہے۔‘‘ اگر ہم محبّت، عبادت، ریاضت کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں، تو پہلی سیڑھی ادب ہے۔ ادب کی تعلیم تو خود خالقِ کائنات نے دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو رسول اللہﷺ کے سامنے بلند نہ کرو۔ اور نہ ان سے کُھل کر بولو، جیسے تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضایع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ ان آیات میں اللہ رب العزت نے جو آدابِ نبوت تعلیم فرمائے ہیں، ان کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کمال درجہ تعمیل فرمائی کہ دیکھنے والے ششدر رہ جائیں۔
اللہ کے حبیبﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بیٹھے ہوتے، تو ان سراپا ادب نفوس کا یہ حال ہوتا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ ادب و احترام میں رسول کریمﷺ کو نظر بھر کر بھی نہ دیکھتے۔ جب ہمارے آقا و مولاﷺ گفتگو فرماتے تو بالکل خاموشی چھا جاتی۔ ادب و محبت میں صحابہ وضو کا پانی زمین پر گرنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے۔ حضرت عُمرؓ تو اس قدر آہستہ آواز میں گفتگو کرتے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا۔
مگر افسوس آج کے اس پُرفتن دَور میں بہت سے لوگ ادب کو ملحوظ نہیں رکھتے، حالاں کہ اس کارخانہ قدرت میںانسان کو جو جو نعمتیں ملیں، ادب ہی کی بنا پر ملی ہیں۔ اور جو ادب سے محروم ہے، حقیقتاً وہ ہر نعمت سے محروم ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔‘‘ غرض یہ کہ ادب ہی ایک ایسی صفت ہے، جو کسی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
جس طرح ریت کے ذرّوں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا، اسی طرح مؤدب شخص انسانوں کے جمِ غفیر میں اپنی شناخت قائم رکھتا ہے۔ اسلامی تاریخ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ ادب ہی کی بنا پر حضرت جبرائیل علیہ السلام ’’سیّدالملائکہ‘‘ بنے اور بے ادبی کی وجہ سے معلم الملائکہ ’’شیطان‘‘ بنا۔ اس طرح کی کئی روایات اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں۔آخری کتاب، قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اس کو صرف وہی لوگ چُھو سکتے ہیں، جو پاک ہیں۔‘‘ (سورۃ الوقعہ) یہ تو وہ کتاب ہے، جس کے بارے میں خالقِ کائنات فرماتا ہے ’’فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍۙ ۔‘‘
اسی طرح والدین کا ادب بھی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھادیا کہ کیسے کرنا ہے۔ غزوئہ حنین کے موقعے پرحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے لیے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر بچھا دی۔ ایک مرتبہ مدینے میں آئیں، توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نشست سے اٹھے اور فرمایا ”میری محترم ماں، آئیے ،تشریف لائیے۔“ پھر آپ نے چادر بچھا کر عزت و تکریم سے اُن کو اس پر بٹھایا۔
پس! ہمیں بھی اپنے نفس کو ادب کے تابع کرنا چاہیے کہ عشق کے جتنے بھی راستے ہیں، وہ سب آداب ہی میں ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’میرے ربّ نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین ادب سکھایا۔‘‘ تو ہم جہاں اور بہت سی دعائیں مانگتے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ سے ادب کی توفیق بھی مانگیں کہ ’’اے اللہ! ہمیں ادب سکھا اور ادب عطا فرما۔‘‘