چین سے ایئرو ناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری لے کر وطن واپس آنے والا تربوز کا جوس بیچنے پر مجبور ہے۔
چائے والا پڑھ لکھ کر ڈپٹی کمشنر یا وزیرِاعظم بن جائے تو نظام کی یہ خوبی سب کو اچھی لگتی ہے لیکن اگر کوئی انجینئر تربوز کا جوس بیچنے پر مجبور ہو جائے تو سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
عبدالملک ایسا ہی ایک سوالیہ نشان ہیں جو چین سے ایئرو ناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری لے کر وطن واپس آئے تھے مگر سفارش نہ ہونےکے باعث آج بھی مناسب نوکری کی تلاش میں ہیں۔
عبدالملک کی اسکولنگ عرب امارات میں ہوئی جبکہ ایئروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری انہوں نے چین کی یونیورسٹی سے حاصل کی۔
سوات سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان اچھے مستقبل کا خواب لے کر پاکستان آیا تھا، ایئرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں انٹرن شپ کی۔
پشاور فلائنگ کلب میں ٹرینی انجینئر اور ایک نجی ایئرلائن میں اسسٹنٹ ریمپ آفیسر کی ملازمتوں میں چند سال بھی لگائے مگر نہ اہلیت کے مطابق عہدہ ملا، نہ حق کے مطابق تنخواہ ہی ملی۔
جب بیس پچیس ہزار میں گھر چلانا ممکن نہ رہا تو عبدالملک زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کراچی آ گئے اور یہاں تربوز کا جوس بیچنے لگے۔
عبدالملک پشتو، اردو، انگریزی، عربی اور چائنیز زبانیں جانتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ وہ متعلقہ حکام کو اپنا مسئلہ کس زبان میں سمجھائیں۔