• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نیلسن منڈیلا اور باکسر محمد علی جیسے لیجنڈز کی زندگیوں کا جائزہ لیں۔ وہ لوگ، جن کے ہاتھ میں تمام معاملات ہوتے ہیں اور جو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، زندگی کا آخری عشرہ موت کا انتظار کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس قدر کمزور پیدا کیا گیا ہے انسان کو ۔

آدمی جب اپنے کمزور جسم کو دیکھتا ہے۔ یہ جسم چوبیس گھنٹے میں چھ سات گھنٹے نیند کا مطالبہ کرتا ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر ذرا سا اوپر نیچے ہو، یہ گر پڑتا ہے۔ جسم کا درجہ حرارت ذرا سا بلند ہوا، اسے آرام درکار ہوتا ہے، سر میں ہلکا سا درد اور بس۔ ایک رگ میں خون کی روانی متاثر ہو تو اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کا کوئی مہرا ذرا سا کھسکے، یہ تڑپنے لگتا ہے۔ ذرا کوئی ہڈی اپنی جگہ سے ہٹے، یہ درد سے بلبلا اٹھتا ہے۔ ذرا سی اس کی نیند متاثر ہو، یہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جسم کی حالت یہ ہے اور دوسری طرف دماغ ہے، جو خواہشات اور جذبات تلے دبا رہتا ہے۔

دولت اور انتقام سمیت ان گنت ایسے جذبات ہیں، جو ساری زندگی کھا جاتے ہیں لیکن ان کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ جیسے جیسے وسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے ان خواہشات میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔ آپ اسے جھونپڑی سے نکال کر محل میں لے آئیے، دو دن بعد یہ اس سے بڑے محل کی خواہش کر رہا ہو گا۔ آپ اسے ایک شہر کا ناظم بنا دیجیے، دو دن بعد وہ ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہو گا۔ آپ اسے ایک ملک کی بادشاہت دے دیجیے۔ دو دن بعد وہ دوسرے ممالک کو فتح کرنے کی خواہش کر رہا ہو گا۔ یہ ہیں تباہ کن انسانی خواہشات، جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔انسان زندگی بھر دوسرے انسانوں کے نرغے میں رہتا ہے۔ وہ اسے لوٹنا چاہتے ہیں، اس کا استحصال چاہتے ہیں، اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انسان انسان کے ہاتھو ں ساری زندگی ذلیل ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی بھی اپنی مرضی سے بسر کرنا چاہتے ہیں۔

انسانی ضروریات کا پیٹ بھی کہاں بھرتا ہے؟ 7 ارب انسانوں کی اکثریت روزانہ محنت مزدوری کرتی ہے تو پیٹ بھرنے اور بدن ڈھانپنے کے وسائل اکٹھے کر پاتی ہے۔ ماں باپ دن رات محنت کرتے ہیں تو اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حیرت یہ کہ ایسے کمزور انسان سے، جس کی ضروریات، جس کی ذہنی اور جسمانی کمزوریاں اور خواہشات اسے کسی قابل نہیں چھوڑتیں، جو لمحہ لمحہ اپنی خواہشات کے سامنے پھسلتا رہتا ہے، خدا کیا چاہتا ہے؟

جب آپ اہلِ علم سے پوچھیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے: خدا نے انسان کو اس لئے ہرگز نہیں بنایا کہ وہ ساری زندگی ایک نمونہ عمل بن کر گزارے بلکہ نمونہ عمل توایک ہی ہستیؐ ہے۔ انسان کو جان بوجھ کر کمزور بنایا گیا۔ ایک ایسی مخلوق جو خواہشات اور ہدایت کے درمیان کروٹیں بدلتی رہے۔ ایک ایسی مخلوق جو ہمیشہ خدائی مدد کی محتاج رہے۔ اگر اس نے مکمل طور پر ہدایت یافتہ مخلوق بنانا ہوتی تو فرشتوں کی شکل میں تو وہپہلے ہی موجود تھی۔ زمین و آسمان کی ہر چیز تو خدا کی تسبیح پڑھ رہی ہے‘ ان مخلوقات میں ایک اور کا اضافہ بھلا کیا معنی رکھتاہے ۔ اس لئے انسان بنایا گیا۔ خواہشات اور کمزوریوں سے بھرپور، قدم قدم پر لڑکھڑا تا ہوا۔ اس انسان کو خیرہ کن عقل دی گئی۔ یہ عقل ایسی تھی کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو ایک نام دیا۔

انسان کو جو یہ عقل دی گئی، اسی کی مدد سے اس نے خدا کو پہچاننا تھا۔ ایک اجنبی سرزمین میں، جہاں کے حالات و واقعات اس کے بس میں بالکل بھی نہیں تھے بلکہ ایک پتا بھی ہلنے کے لئے خدا کا محتاج تھا۔ وہاں اسے قدم قدم پر خدا سے مدد مانگنا تھی۔ اسے پھسلتے رہنا تھا، معافی مانگتے رہنا تھا، کوشش کرتے رہنا تھا۔ یہ تھی خدا کی منشا۔ یہ خدائی عظمت کا ایک نشان تھا کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر شے کا مالک ہونے کے باوجود ایک ایسی مخلوق پیدا کی جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتی۔ جو کبھی ہدایت کی طرف جاتی، کبھی پھسل جاتی، پھر نادم ہوتی، پھر رجوع کرتی۔ پھر اس نے معاملہ یہیں تک محدود نہیں رکھا۔ یہ کہا کہ زندگی بھر کے گناہوں کے بعد بھی کوئی نادم ہو گا تو معاف کر دوں گا۔ ستر سال کے گناہ مٹا دیے جائیں گے۔ اس نے توبہ کرنے والوں کو صرف معاف کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ ان سے محبت کی۔ انسان کو زمین و آسمان کی سب سے خوبصورت تخلیق یعنی عقل سے نوازا گیا۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ ذرا سا غور کرتی تو خدا تک رسائی حاصل کرتی۔ یہ عقل ایک Toolتھی۔ اسے زمین و آسمان میں خدا کی نشانیاں دیکھتے ہوئے اس تک رسائی حاصل کرنا تھی۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ زمین و آسمان کی مختلف چیزوں اور اپنے اندر خدا کی نشانیوں کو دیکھ سکتی، اُنہیں پہچان سکتی۔ بس یہ تھی ساری داستان!

تازہ ترین