بلاول بھٹو کی آمد جنوبی پنجاب میں بظاہر کوئی بڑا سیاسی ارتعاش پید انہیں کرسکی ،تاہم آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے 10 روزہ دورہ جنوبی پنجاب کو انہتائی کامیاب قراردیا ہے اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں ،کارکنوں اور عوام کو اس دورہ کی کامیابی پر مبارکباددی ہے ،ابتدائی طور پر یہ دورہ مختصر تھا ،لیکن بلاول بھٹو کی مصروفیات اور مختلف شہروں سے رہنماؤں کی درخواستوں پر کہ وہاں کا دورہ کیا جائے۔
انہوں نے اپنے اس دورے کو 10 روز تک بڑھا دیا ،یہ کسی بھی قومی سطح کے رہنما کا طویل ترین دورہ تھا ،آصف علی زرداری نے اس دورہ کی بنیاد پر بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کی پیش گوئی کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ آئندہ چاروں صوبوں اور مرکز میں پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی،ان کی یہ پیش گوئی فی الوقت ایک دیوانے کا خواب نظرآتی ہے،مگر سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتااور آج کے ہارنے والے کل کے فاتح ٹہرتے ہیں۔
مجموعی طور پر بلاول بھٹو کا یہ دورہ اس حوالے سے سیاسی اہمیت رکھتا ہے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں جاکر پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور پارٹی سے ہمدردی رکھنے والوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی، وہ ایسے شہروں میں بھی پہلی بار گئے ،جہاں خود آصف علی زرداری بھی نہیں جاسکے۔
انہوں نے ایک متحرک نوجوان سیاسی رہنما کی حیثیت سے اپنے اس دورے کے گہرے اثرات مرتب کئے ، اس دورے میں اگرچہ بڑی سیاسی شخصیات نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا ،تاہم عوامی سطح پر جنوبی پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں بلاول بھٹو کے استقبال کے مناظر دیکھنے میں آئے ،کیونکہ بلاول بھٹو نے زیادہ سفر بذریعہ سٹرک کیا ،اس لئے ان کے استقبال کی ریلی جگہ جگہ رکتے ہوئے بڑے شہروں تک پہنچی۔
پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس دورے میں تقریباً25 چھوٹے بڑے شہروں میں بلاول بھٹو کا استقبال ہوا اور انہوں نے کئی شہروں میں رک کر خطاب بھی کیا ،اس طرح کا دورہ ایک زمانے میں ان کی والدہ شہیدبے نظیر بھٹو کیا کرتی تھیں ،جب وہ ایک شہر سے دوسرے شہر بذریعہ سٹرک جاتیں اور راستے میں آنے والے ہرچھوٹے بڑے شہر میں رکتیں ،جہاں لوگ ان کے استقبال کے لئے موجود ہوتے۔
یہ ایک ایسا دورہ تھا ،جو اگر بڑے بڑے دعووں کے بغیر کیا جاتا ،تو مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتاکہ بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب سے خالی ہاتھ واپس گئے ہیں ،یہ فضا سید یوسف رضا گیلانی ،مخدوم احمد محمود اور ان کے حواریوں نے بنائی تھی کہ اس دورے میں جنوبی پنجاب کی بڑی شخصیات پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گی ،شاید انہیں دعووں کا دباؤ تھا کہ پیپلزپارٹی کے مقامی رہنما ادھر ادھر سے کھینچ تان کر ایسے لوگوں کو بلاول بھٹو سے ملواتے رہے ،جو ابھی سیاست میں اپنی پہچان بھی نہیں کراسکے ۔
اس سے قطع نظر جنوبی پنجاب کا یہ دورہ اس لئے ایک سیاسی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طویل عرصہ بعد یہاں عوامی سطح پرایک ہلچل مچی ہے ،وگرنہ بشمول پیپلزپارٹی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جنوبی پنجاب کو نظرانداز کیا ہوا ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ انتخابات قریب آئیں گے ،تو جنوبی پنجاب پر توجہ دی جائے گی۔
سیاسی جماعتوں کی یہی حکمت عملی یہاں کے عوام کو احساس محرومی میں مبتلا کرتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں صرف اس موقع پر یاد کیا جاتا ہے ،جب سیاسی کھلاڑیوں کو ان کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے ،ایسی فضا میں بلاول بھٹو نے ایک طویل دورہ کرکے اس خطہ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ اس دورے سے پیپلزپارٹی کو کیا حاصل ہوا ،اور دیگر جماعتوں نے کیا کھویا ہے، لیکن اگر پیپلزپارٹی میں کا رکنوں کو ہی نظرانداز کیا جائے گا ،تو پھر بلاول بھٹو دس دن تو کیا ،دس ماہ بھی عوام سے رابطہ کرتے رہیں گے ،تو اس کے مثبت اثرات نہیں ہوں گے۔
جہانگیرترین گروپ کے اہم کارکن سلمان نعیم سپریم کورٹ کے حکم سے ایم پی ے بحال ہوئے تو ان کے ساتھ حکومتی رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے ، خاص طورپر پنجاب حکومت کی اہم شخصیت نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں تحریک انصاف کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انہوں نے اس کے لئے دوشرطیں رکھی ہیں ،پہلی یہ کہ ان کے حلقہ کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز اور منصوبے فراہم کئے جائیں ،کیونکہ تین سال سے نمائندگی نہ ہونے کے باعث وہاں مسائل کے انبار لگ چکے ہیں ،دوسری شرط یہ کہ وہ جہانگیرترین گروپ کے خلاف کوئی بیان باز ی نہیں کریں گے ،ذرائع کے مطابق ان کی پہلی شرط ماننے کی حامی بھری گئی ہے۔
تاہم دوسری شرط کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنا موقف تبدیل کریں، کیونکہ اگر وہ گروپ بندی کا شکار رہے ،تو مستقبل میں ان کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ،سلمان نعیم کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ ابھی تک گومگوں کی کیفیت میں ہیں اور انہوں نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ،تاہم ان کا رابطہ جہانگیر ترین سے مسلسل جاری ہے اور وہ جو فیصلہ بھی کریں گے وہ جہانگیر ترین کی مرضی اور اجازت سے کریں گے ،جبکہ ان کے حلقہ کے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ سلمان نعیم اپنی سیاست کرنے کی بجائے جہانگیر ترین کے زیراثر ہیں اور عوام کو ریلیف دینے کی کوشش نہیں کررہے۔