• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور BRT منصوبے میں 4 ارب 72 کروڑ کی بے ضابطگیاں

پشاور (ارشد عزیز ملک)آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی2018-19کی رپورٹ میں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں 4ارب 72کروڑ 29لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں ، غیر مجاز ادائیگیوں، غلط استعمال اور فرضی اخراجات کا انکشاف ہوا ہے سرکاری افسروں و اہلکاروں کو الائونس کی مد میں 2کروڑسے زائدکی ادائیگیاں ، 143 انٹرنیزکوتنخواہوں کی مد میں 33لاکھ 73ہزار اداکئے گئے ۔معاون خصوصی کامران بنگش نے بتایا کہ بی آرٹی میں کرپشن نہیں ہوئی، آڈٹ رپورٹ معمول کی کاروائی ہے،پی اے سی میں تمام اعتراضات کا دفاع کیا جائے گا،اس رقم میں آڈیٹرز کی جانب سے نشاندہی پر ایک ارب 47کروڑ 80لاکھ روپے کی وصولی بھی شامل ہے ۔وزیراعلی کے معاون خصوصی اور صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے جنگ کو بتایا کہ آڈٹ رپورٹ معمول کی کاروائی ہے جس میں آڈٹ پیروں کے ذریعےریکارڈ کی عدم موجودگی میں بعض اعتراضات کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ کئی اعتراضات اور معاملات کو ڈپیارٹمنٹل اکائونٹس کمیٹی کےا جلاس میں حل کر لیا جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ آڈٹ رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ حکومت پی اے سی میں تمام اعتراضات کا بھرپور دفاع کرے گی کیونکہ بس ریپڈ ٹرانزٹ میں کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں ہوئی ۔جنگ کے پاس موجود رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے پروجیکٹ مانیٹرنگ کمیٹی کے افسروں کو بی آر ٹی الاؤنسز کی مد میں ماہانہ تین لاکھ روپے دینے کی منطوری دی جس کے تحت ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو ماہانہ تین لاکھ روپے کا الائونس ملنا تھا لیکن افسروں کو ایک کر وڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں ۔ان افسروں میںاس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہزاد خان بنگش ٗ محکمہ بلدیات کے سیکرٹریز کامران رحمان ٗ سید جمال الدین شاہ اور ظاہر شاہ شامل ہیں ۔اسی طرح ،ایک کروڑ 10الاکھ روپے کی رقم غیرقانونی طورپر بی آر ٹی الاؤنس کی مد میں غیر متعلقہ افسران/اہلکاروں کو ادا کیے گئے جن کے عہدہ نظر ثانی شدہ پی سی ون میں درج نہیں تھے جبکہ 143انٹرنیز کو بھرتی کرکے انھیں 33لاکھ 73ہزار روپے تنخواہوں کی مد میں غیر قانونی طورپر اداء کئے گئے ۔رپورٹ کے مطابق چیف ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کو2کروڑ 42لاکھ 50ہزارروپے خلل /پریشانی کی مد میں اداء کئے گئے منظور شدہ پی سی -1 میں اس مقصد کے لیے کوئی شق نہیں تھی ، اسی لیے یوٹیلیٹی ری لوکیشن کے لیے فراہم کردہ فنڈز میں اس رقم کو ایڈجسٹ کیا گیا جو بےضابطگی کے زمرے میں اتا ہے ۔پی ڈی اے نے ملازمین کی تنخواہوں اور پٹرول کی مد میں 2کروڑ 18لاکھ روپے خرچ کئےاس رقم کو بی آر ٹی کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کی قیمت کے مقابلے میں ایڈجسٹ کیا گیا۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق گاڑی کی خریداری کی مد میں رقم کی وصولی غیرقانونی ہے اس لئے اس کی ریکوری ہونی چاہیے ۔گاڑیوں کی فراہمی کے لیے میسرز مقبول کالسن کو ایک کروڑ 44لاکھ وپے کی ادائیگی ایک خط کے ذریعے بغیر کسی کھلے ٹینڈر کےکی گئی جبکہ انڈس موٹرز کوایک کروڑ 33لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی اس کے نتیجے میں ٹھیکیدار کو ایک کروڑ 19لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی ہوئی ، جس کی وصولی کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں 2ارب 68کروڑ روپے کے اخراجات کو فرضی قرار دیتے ہوئے اس کو قانونی جوازفراہم کرنے کی ضرورت ہے 2017-18کے دوران محکمے نے ایک ارب 24کروڑ 85لاکھ روپے غرقانونی طورپر اپنے پاس رکھے ۔

تازہ ترین