• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذیل میں جو کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں وہ کتابوں میں نہیں ملتیں بلکہ سینہ بہ سینہ سرایت کرتی ہیں ،جیسے کچھ ملکو ں میں غربت اور لوڈ شیڈ نگ نسل در نسل منتقل ہو تی چلی جاتی ہیں ۔ ا ن سبق آموز کہانیوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان سے کبھی کسی نے سبق حاصل نہیں کیا لیکن پھر بھی داستان گو ان کو بیان کرنے سے باز نہیں آتے ۔
چالاک کوا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا بہت پیاسا تھا ۔وہ پانی کی تلاش میں اِ دھر اُدھر اڑ رہا تھا ۔اس دوران اس کو کئی گھڑے نظر آئے مگر وہ گھڑے کا پانی پینے والا کوا نہیں تھا ۔وہ جدید دور کا کوا تھا ،اس کو توکسی ریفریجریٹر کی تلاش تھی ۔آخر اسے ایک فریج نظر آ گیا ۔وہ لپک کر اسکے پاس پہنچا مگر بجلی خراب تھی اور ریفریجریٹر بند پڑا تھا ۔کوا بجلی گھرگیا اور بجلی ٹھیک کرنے کی درخواست دی ۔اس کی درخواست میز در میز رسوا ہوتی رہی لیکن کوے کی شنوائی نہ ہوئی ۔ کوا بڑا چالاک تھا ۔وہ سارا دن منڈیروں پر بیٹھ کر انسانوں کے کرتوت دیکھتا تھا اور ان کی خصلتوں اور خباثتوں سے خوب واقف تھا ، لٰہذا وہ اڑ کر گیا اور لال ،نیلے نوٹ لا ،لا کر لائن مین کی جیب میں ڈالنے لگا ۔حتی ٰ کہ اس کی جیب بھر گئی ۔لائن مین فوراََ گیا اور اس نے بجلی ٹھیک کر دی ۔ چالاک کوے نے فریج سے ٹھنڈا پانی پیا اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اڑ گیا ۔
سبق :رشوت ہر کام کی ماں ہے

سستا اور فوری انصاف
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک عادل بادشاہ کی حکومت قائم ہو گئی ۔بادشاہ عدل و انصاف کا دلدادہ تھا اور رعایا کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا شوقین بھی ۔ رعایا ان باتوں کی عادی نہ تھی لٰہذا اس کو اکثر بد ہضمی کی شکایت رہنے لگی لیکن بادشاہ وقت انصاف کرنے سے باز نہ آیا ۔اس کے عدل کا ایک قصہ بڑا مشہور ہوا کہ جب بادشاہ کو ایک پرانا دوست ملنے کے لئے آیا(جس کے ساتھ مل کر بادشاہ کبھی وارداتیں کیا کرتا تھا) اور اپنے میٹر ک پاس بیٹے کے لئے نوکری کی درخواست کی ۔بادشاہ نے وزیر خاص (جس کی ڈگری بعد میں جعلی ثابت ہوئی ) کو حکم دیا کہ ”بچے کو سو ل اسپتال میں سرجن لگا دو“ وزیر خاص ہکا بکا رہ گیا ۔اس نے عرض کی ” عالی جاہ ! سرجن کا کیا کروں ؟ “ حکم ہوا ” اسے تھانیدارلگا دو “ وزیر نے پھر دہائی دی ” تھانیدار کو کہاں بھیجوں “ ” اسے جیل میں ڈال دو “ بادشاہ نے زچ ہو کر کہا ۔ درباری نورتن (جنہیں مخالفین کفن چور ٹولہ کہتے تھے ) اس فیصلے پر عش عش کر اٹھے ۔بادشاہ اس مقولے کا قائل تھا کہ اختیارات سنبھال کر رکھنے کی چیز نہیں ہوتے بلکہ خوب استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔چنانچہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اختیارات استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتا ۔ایک دن بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا ۔ایک خوش الحان مغینہ دربار میں نغمہ سرا تھی کہ اس دوران انصاف کا وقت ہو گیا ۔ وزیر انصاف (جو تازہ تازہ جیل سے رہا ہو کر آیا تھا ) نے بادشاہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ۔ بادشاہ نے گانا عارضی طور پر روک دیا اور ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیا ۔ملزمان کار یوڑ دربار میں پیش ہوا تو بادشاہ نے چھڑی کے اشارے سے انہیں دو حصوں میں بٹ جانے کا حکم دیا ۔چنانچہ نصف ملزمان دائیں اور باقی بائیں طرف ہو کر کھڑے ہو گئے ۔بادشاہ نے تمام مقدمات کا مختصر مگر عقل شکن فیصلہ سنایا کہ ” دائیں طرف والے سارے بری جبکہ بائیں طرف والے تمام ملزم سزائے موت “… درباری بیربلوں اور ملا دو پیازوں نے اس سستے اور فوری انصاف پر داد کے ڈونگرے برسائے اور گانے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا ،جہاں سے ٹوٹا تھا ۔
سبق :سستا اور فوری انصاف ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے ۔

جلد بازی کا انجام
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک چوہدری رہتا تھا ۔اس کے ساتھ حویلی میں ایک ملازم خاص (میراثی ) بھی رہائش پذیر تھا ۔ مالک اور نوکر ایک ایسی سست الوجود قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ٹھہرے ہوئے، پر سکون مزاج کی مالک تھی اور آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادی تھی ۔ ایک د ن چوہدری پکوڑے کھانے کے بعد اخبار سے بنے لفافے کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ اس نے خبر پڑھی کہ محکمہ زراعت نے جدید پیوند کاری کے ذریعے گندم کا ایسا بیج ایجاد کیا ہے جو دگنی فصل دیتا ہے ۔چوہدری نے ملازمین کو اکٹھا کر کے نئے بیج کے متعلق صلاح مشورہ شروع کیا ۔ صلاح مشورے کی مختلف نشستیں جاری رہیں اورآخر ایک سال بعدگندم کا بیج مذکورہ بونے کا فیصلہ ہو گیا ۔فصل بونے کا موسم قریب آیا تو چوہدری نے ملازم خاص کو بیج لانے کے لئے شہر بھیجا ۔ میراثی لاری پر طویل سفر طے کر کے شہر پہنچا تو تھکن سے چو ُر تھا ۔وہ شہر میں اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تا کہ چند دن آرام کر کے سفر کی تھکاوٹ دور کرے اور بیج خرید کر واپسی کاقصد کرے ۔ میراثی کوشہر میں مختلف عزیزوں اور دوستوں کے ہاں آرام کرتے اور ”بتیاں شتیاں “دیکھتے ایک سال کا عرصہ گزر گیا ۔آخر جب دوبارہ فصل کاشت کرنے کا موسم آیا تو چوہدری کو میراثی کی یاد آئی ۔ اس نے ایک اور نوکر کو شہر بھیجا تا کہ میراثی کو ڈھونڈ کر لائے ۔ در اصل چوہدری کو روایت سے ہٹ کرفصل بونے کی جلد ی پڑگئی تھی (جیسے کچھ لوگوں کوبجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی جلدی ہوتی ہے )نوکر نے بڑی مشکل سے میراثی کو شہر میں تلاش کیا اور چوہدری کا پیغام پہنچایا ۔میراثی جب بیج کی بوری کمر پر اٹھائے گاؤ ں پہنچا تو بارش کے باعث ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا ۔وہ حویلی کے گیٹ سے داخل ہوا تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے بوری سمیت گر گیا ۔بوری پھٹ گئی اور سارا بیج کیچڑ میں بکھر گیا ۔چوہدری نے آگے بڑھ کر میراثی کو اٹھا نا چاہا تو وہ کیچڑ میں لیٹے لیٹے ہاتھ کھڑا کر کے بولا ” بس رہنے دیں چوہدری صاحب !آپ کی جلد بازیوں نے ہمیں ما رڈالا ہے “ چوہدری پر گھڑوں پانی پڑ گیا اوراسے اپنی غیر حکیمانہ عجلت پر سخت ندامت ہوئی ۔
سبق :جلد بازی شیطان کا کام ہے، چاہے وہ فصل بونے میں کی جائے یا ڈیم وغیرہ بنانے میں ۔دہشت گردی ختم کرنے کے سلسلے میں کی جائے یا لوڈ شیڈ نگ اور مہنگائی پر قابو پانے میں ۔
تازہ ترین