’’مجھے کیوں نکالا کے بعد، اگر میں حکومت سے نکل گیا تو ‘‘

January 25, 2022

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹیلی فون پر عوام کے سوالوں کے جواب اگر غیر سیاسی، اجتماعی مسائل، لوگوں کو درپیش مشکلات سننے اور ان کے حل کیلئے عملی اقدامات کی فوری کارروائی کے احکامات تک ہی محدود رہیں تو شاید زیادہ مناسب ہوگا۔

دنیا کے کئی ممالک میں سربراہ مملکت عوامی مشکلات کا براہ راست جائزہ لینے کیلئے ایسے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں جن میں سیاسی معاملات پر بات کرنے سے گریز ہی کیا جاتا ہے۔

بعض عوامی حلقوں کی ایسی آراء اور تجاویز اتوار کو ’’وزیراعظم آپ کے ساتھ‘‘ کے پروگرام میں عوام کی براہ راست کالز میں جوابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر سامنے آئیں جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

اس پروگرام میں جہاں وزیراعظم کی گفتگو کو پسند کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی وہیں بالخصوص اپوزیشن کے رہنمائوں پر تنقید اور الزامات کے ضمن میں الفاظ کے چنائو کے حوالے سے لوگوں کے اعتراضات بھی سامنے آئے جنہیں ان کے منصب کی شان کے برعکس قرار دیا گیا۔

پھر اپوزیشن جماعتوں کے ترجمان اور رہنمائوں نے بھی پورے جذبات اور اشتعال سے ٹی وی سکرین کی وساطت سے ’’سب کچھ واپس لوٹایا‘‘ اور حکومتی ترجمانوں کی جانب سے ’’ جواب الجواب‘‘ نے صورتحال کو مزید مکدر کیا یقیناً ایسی صورتحال ہمیشہ اپوزیشن کے حق میں ہی جاتی ہے۔

وزیراعظم نے ہر ماہ اس پروگرام میں شرکت کی خواہش ظاہر کی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یقیناً انہیں ’’احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بقول وزیراعظم کے’’ اگر میں حکومت سے نکل گیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘ ان کا مخاطب کون تھا اس پر بھی بحث جاری ہے لیکن وزیراعظم کا غصہ، ناراضی اور تیور یہ بتا رہے تھے کہ ان کا اشارہ عدلیہ، اپوزیشن، ادارے، میڈیا سبھی کی طرف تھا اور ان میں شامل وہ افراد اور شخصیات بھی ان کی زد میں تھے جنہیں وہ اپنے حکومتی اور سیاسی عزائم میں مزاحمت اور مداخلت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

آج (منگل) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں متوقع طور پر اہم فیصلوں کا دن ہے جن میں ایک بڑا فیصلہ یہ بھی زیر غور ہوگا کہ پی ڈی ایم کی جانب سے 23 مارچ کو اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی جو کال دی گئی ہے کیا اس میں تبدیلی کی جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مشترکہ احتجاج، مارچ اور دھرنا کیا جائے اور اگر اس سے قبل عدم اعتماد کی تحریک کے بارے میں کوئی یقینی صورتحال واضح ہو جاتی ہے تو اس صورت میں پیشرفت کا انداز کیا ہوگا؟

پارلیمانی ایوانوں میں ایک سے زیادہ بار شکست خوردہ اپوزیشن کے رہنما اس مرتبہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان جو ماضی کے تجربات کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کی اس تجویز کو رد کرتے آئے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ان کی حکومت کو ختم کیا جائے۔

ان کا استدلال تھا کہ اگر ہمیں اس بات کی ’’عملی یقین دھانی‘‘ کرا دی جائے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعداد سے اضافی ووٹ ہوں گے اور وہ مطمئن بھی ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی حمایت بھی حاضر ہوگی۔