بلدیات کا دوسرا مرحلہ: تحریک انصاف کیلئے کڑا امتحان

January 27, 2022

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا شیڈول جاری کردیا ہے جس کے مطابق 27مارچ کو صوبہ کے 18 اضلاع ایبٹ آباد، مانسہرہ، تور غر، شانگلہ، اپر کوہستان، لوئر کوہستان، پالس، کولئی، شانگلہ، سوات، ملاکنڈ، دیر لوئر ،دیر اپر، باجوڑ، لوئر چترال ،اپر چترال ، کرم ،اورکزئی اور جنوبی وزیرستان میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے، امیدوار 7 سے 11 فروری تک کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے، 25 فروری تک کاغذات نامزدگی واپس لئے جاسکیں گے جبکہ پولنگ 27 مارچ کو ہوگی، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات کیلئے پارٹی کے خواہش مند امیدواروں سے درخواستیں طلب کرلی ہیں۔

جہاں تک بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ صوبہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ابھی چند ہفتے قبل ہی جب بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہواتو صوبہ پر گزشتہ 8سالوں سے حکومت کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کوبدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ،یہاں تک کہ وہ مئیر کی کوئی بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی ، پشاور ، کوہاٹ اور بنوں میں جمعیت علمائے اسلام اور مردان میں مئیر کی نشست عوامی نیشنل پارٹی لے اڑی، اسی طرح تحصیل چیئرمینوں کے نتائج کے لحاظ سے بھی جے یو آئی تحریک انصاف سے کافی آگے نکل گئی تھی بلکہ پشاور جیسے شہر میں پی ٹی آئی 6 تحصیل چیئرمینوں میں سے صرف ایک پر ہی کامیابی حاصل کرسکی۔

جب پہلے مرحلے کیلئے ٹکٹ تقسیم کئے جارہے تھے تو اس وقت بھی پارٹی میں اختلافات کھل کر دکھائی دے رہے تھے اور پشاور سمیت کئی مقامات پر کارکنوں کی طرف سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کو اقربا پروری قرار دیتے ہوئے اس کیخلاف احتجاج بھی کیا گیا تھا اگر ہم صرف پشاور کی بات کریں تو تحصیل ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دو کے علاوہ تمام تحصیل نشستوں پر پارٹی امیدوار کا مقابلہ پارٹی ہی کے باغی امیدواروں نے آزاد حیثیت میں کیا۔

انتخابی شکست کے بعد صورت حال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جانے لگی اور پشاور کے معاملات کیلئے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا، اگرچہ صوبائی وزرا نے مہنگائی کو شکست کی وجہ قرار دینے کی کوشش کی تاہم پارٹی چیئرمین عمران خان نے انکی رائے مسترد کرکے پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم کو اصل وجہ قرار دیا، اس شکست کے بعد صوبہ کی طرف سے تو کوئی حرکت دکھائی نہ دی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر مرکزی قیادت کو ہی ایکشن لینا پڑا اور تمام تنظیمیں تحلیل کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو صوبائی صدر نامزد کرکے ان کے ماتحت ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی جس سے یہ دکھائی دینے لگا تھا کہ تحریک انصاف اگلے مرحلے میں ان تمام غلطیوں سے بچنا چاہتی ہے جو پہلے مرحلہ میں اس سے سرزد ہوئی تھیں۔

پرویز خٹک نے فوری طور پر ورکرز کنونشنز کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے، ظاہر ہے کہ صوبائی صدر بن کر وہ بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہوچکے ہیں، اب وہ ہر صورت دوسرے مرحلے کے انتخابات میں پارٹی کی شکست کا داغ دھونا چاہتے ہیں تاہم اس وقت بھی بعض اضلاع سے پارٹی اختلافات کی خبریں آرہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی امور میں منتخب نمائندوں اور صوبائی وزرا کی مداخلت جاری ہےچنانچہ اگر بعض صوبائی وزرا اپنے بھائیوں یا پھر قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ دلانے کیلئے سرگرم ہیں تو ساتھ ہی ساتھ پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی بھی اپنے چہیتوں کو میدان میں اتارنے کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں جس کے باعث ایک مرتبہ پھر کارکنوں میں مایوسی کی ایک نئی لہر دکھائی دے رہی ہے حالانکہ پارٹی کی مرکزی قیادت یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ پہلے تو کسی بھی وزیر یا رکن پارلیمنٹ کے رشتہ داروں کو ٹکٹ نہیں دیا جائیگا لیکن اگر کسی جگہ پر ایسا کرنا ناگزیر ہو تو اسکا فیصلہ ایک خصوصی کمیٹی کریگی۔

بہرحال طریقہ کار چاہے جو بھی اختیار کیا جائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر کارکنوں کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے ہوئے تو صورت حال پہلے مرحلے کے نتائج سے مختلف نہیں ہوگی ، اگر تحریک انصاف کیلئے ایک جانب بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جیت کا حصول ایک چیلنج بن چکا ہے تو دوسری جانب پارٹی کی صفوں میں موجود اختلافات بھی دور نہیں کئے جاسکے ہیں۔

پارٹی کے متعدد منتخب ممبران تو اب کھل کر مختلف فورمز پر ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں اور اگر صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی فوری اور کامیاب کوشش نہ کی گئی تو ان اختلافات کا دائرہ نہ صرف وسیع ہونیکا اندیشہ ہے بلکہ اس سے نہ صرف پارٹی کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے بلکہ عام انتخابات میں بھی نقصان اٹھانا پڑیگا کیونکہ اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ پارٹی کے بہت سے ارکان اسمبلی کے مختلف اپوزیشن جماعتوں کیساتھ رابطے ہیں اور مناسب موقع آنے پر انکی طرف سے وفاداریاں تبدیل کردی جائیں گی، پرویز خٹک کو صوبائی صدر بنانے سے یقیناً وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے قبل انہوں نے وزیر دفاع کو صوبائی حکومت کے معاملات سے بالکل لاتعلق کرکے رکھ دیا تھا۔

حتیٰ کہ ان کے مشوروں کو بھی اہمیت نہیں دی جارہی تھی، پرویز خٹک کا صوبائی صدر بننا ان کے گروپ کی تقویت کا باعث بھی بنے گا ، اس وقت جو ایڈوائزری کمیٹی بنائی گئی ہے اس سے گورنر شاہ فرمان ، سپیکر اسد قیصر اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو باہر رکھا گیا ہےجس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پرویز خٹک صرف اپنے حامی لوگوں کو ہی قابل اعتماد سمجھتے ہوئے آگے لانے کے اصول پر عمل پیرا ہوچکے ہیں، ویسے بھی پرویز خٹک کے کریڈٹ پر یہ بات موجود ہے کہ انکی حکمت عملی کے نتیجے میں پارٹی نے 2018کے عام انتخابات میں مثالی کامیابی حاصل کرکے دکھائی تھی، اس لئے مرکزی قیادت نے بھی تمام تر تحفظات کے باوجود صوبہ کے معاملات ایک مرتبہ پھر پرویز خٹک کے حوالے کردئیے ہیں، جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے تو اس وقت کم و بیش26 تحصیلوں کی سربراہی ان کے ہاتھ آچکی ہے اور دوسرے مرحلے میں بھی ظاہر ہے اپوزیشن جماعتیں کئی نشستیں جیت سکیں گی جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجائیگا کیونکہ کئی اہم شہری امور ، مئیر اور تحصیل چیئرمینوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

ظاہر ہے جب2023میں عام انتخابات ہوں گے تو اس وقت اگر ایک طرف عام ووٹر صوبائی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا احتساب کریگا تو ساتھ ہی اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کی ڈیڑھ ، پونے دو سالہ کارکردگی کا بھی احتساب کیا جائیگا اس لئے اپوزیشن جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد مزید محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا ،ویسے بھی ان انتخابات کے بعد صوبائی حکومت اور بلدیاتی نمائندوں کے درمیان ایک طویل کشمکش کے امکانات موجود ہیں جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے منتخب نمائندوں کو اپنے حق کے حصول کیلئے بھر پور کوششیں بھی کرنا ہوں گی تاکہ وہ اپنے ووٹروں اور کارکنوں کو اپنی کارکردگی کے ذریعے مطمئن کرسکے۔