عالمی رینکنگ اور پاکستانی پاسپورٹ

January 29, 2022

تحریر: ہارون مرزا۔راچڈیل


پاکستان بدعنوانی کی عالمی رینکنگ میں ترقی کے بعد کمزور ترین پاسپورٹ کی رینکنگ میں بھی پیش قدمی کر رہا ہے، پاسپورٹ کی رینکنگ کرنے والے عالمی ادارے ہینڈلے کی طرف سے نئی درجہ بندی کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے، درجہ بندی میں بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہم سے آگے نکل گئے ہیں جب کہ برطانیہ کو دنیا کے چوتھے طاقتور ترین پاسپورٹ کا اعزاز مل گیا ہے، سال 2021 میں پاکستانی پاسپورٹ کو رینکنگ میں پانچواں درجہ حاصل تھا جو مزید ایک درجہ کم ہو کر چار پر آ گیا ہے ،اب پاکستان سے کمزور ترین پاسپورٹ کے حامل صرف شام ، عراق اور افغانستان جیسے بدترین خانہ جنگی کا شکار ممالک ہیں باقی دیگر ملکوں کے پاسپورٹ درجہ بندی میں پاکستان سے سبقت لے گئے ہیں جو موجودہ حکومت کیلئے ایک شرمناک حقیقت ہے ،عالمی رینکنگ میں جاپان اور سنگا پور کو دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ کا درجہ دیا گیا ہے مذکورہ ممالک کے پاسپورٹ ہولڈرز دنیا کے 192ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کرنے کا حق رکھتے ہیں یا انہیں آن آرائیول ویزا حاصل کرنے کی سہولت میسر ہے، دوسرے نمبر پر جرمنی اور جنوبی کوریا کو رکھا گیا ہے جن کے شہری 191 ممالک کا بغیربغیر ویزا سفر کرسکتے ہیں، فن لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ اور اسپین کے شہری تیسرے نمبر پر ہیں جو 190 ممالک کا سفر کر سکتے ہیں، امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک چوتھے نمبر پر ہیں جہاں کے شہری 189 ممالک کا ویزا فری یا ویزا آن آرائیول سفر کرسکتے ہیں ۔پاکستانی پاسپورٹ کی قدر میں کمی سے تارکین وطن شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں، انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کو افریقہ کے پسماندہ ترین ملک صومالیہ سے بھی نیچے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں دیکھ کر ان کا دل افسردہ ہے، پاکستان، افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، نیپال، لیبیا، شمالی کوریا، سوڈان، لبنان، کوسوو اور ایران ایک ہی صف میں کھڑے نظرآتے ہیں، جہاں کے شہری 32 ممالک میں ویزا فری یا ویزا آن آرائیول کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں جب کہ اس انڈیکس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کا رینک پاکستان سے کئی گنا بہتر ہے، 70کی دہائی میں پاکستانی پاسپورٹ کا شمار مضبوط پاسپورٹس میں ہوتا تھا اور پاکستانی شہری برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک بغیر ویزا یا ویزا آن آرائیول سفر کرسکتے تھے ،پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت افغان جنگ کے بعد پہنچا جب لاکھوں افغان پناہ گزینوں اور پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی باشندوں نے رشوت کے عوض پاسپورٹ حکام سے پاکستانی پاسپورٹس حاصل کئے یہ لوگ جب بیرون ملک پکڑے جاتے تو انہیں پاکستانی تصور کیا جاتا جس سے پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں بدنام ہوا جب کہ رہی سہی کسر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں نے نکال دی جن کے بیرون ملک پکڑے جانے پر پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کی جگ ہنسائی ہوئی، ایسے میں جب عالمی انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں گراوٹ آتی جارہی ہے پاکستانیوں کو ویزے کے حصول کیلئے مزید سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ،یہ امر باعث افسوس ہے کہ سری لنکا، بنگلہ دیش، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے ویزے کے حصول کے لئے بھی پاکستانیوں کو ایک ایک ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے، ان حالات کے پیش نظر پاکستان کا اشرافیہ طبقہ کچھ ایسے ممالک میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہا ہے جہاں اسے مستقل رہائش اور پاسپورٹ کا حصول ممکن ہے ،ان ممالک میں آج کل ترکی سرفہرست ہے جہاں دو سے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری پر مستقل رہائش اور صرف ایک سال میں ترکش پاسپورٹ حاصل کیا جاسکتا ہے، میرے کئی جاننے والے اس اسکیم سے فائدہ اٹھاچکے ہیں، یو اے ای حکومت کی ایک اسکیم کے تحت بھی یو اے ای میں ریئل اسٹیٹ یا کسی بھی شعبے میں 2 ملین درہم کی سرمایہ کاری کرنے پر پورا خاندان گولڈن ویزا حاصل کرسکتا ہے جس کی مدت 10 سال ہوتی ہے اور اس اسکیم میں بھی پاکستانی بہت دلچسپی لے رہے ہیں، ہینڈلے کی پاسپورٹ درجہ بندی کی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی حکومت پاکستان نے بھی ترکی اور دوسرے یورپین ممالک کی طرز پر غیر ملکیوں کو مستقل رہائش کی سہولت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسے غیر ملکی جو پاکستان میں پراپرٹی میں ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے، وہ پاکستان میں مستقل شہریت اور پاسپورٹ کے حقدار ہوں گے، اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زائد سرمایہ کاری کرنے والوں کو 5 سے 10 سال تک کی رہائش یا مستقل شہریت دی جاسکے گی، حکومت پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان کے دولت مند افراد اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے، اسی طرح دنیا میں مقیم سکھوں کی بڑی تعداد پاکستان میں اپنے مقدس مقامات ننکانہ صاحب، کرتاپور اور حسن ابدال میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہوگی جس پر انہیں پاکستان میں مستقل رہائش مل سکے گی جب کہ حکومت کو یہ امید بھی ہے کہ چینی باشندے بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے،لیکن ملک کی موجودہ معاشی صورتحال، پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں تنزلی اور کمزور ترین رینکنگ دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ غیر ملکی شہری اس اسکیم میں دلچسپی لیں گے کیونکہ لوگ ان ممالک میں لاکھ یا دو لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں جن کے پاسپورٹ مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں تاکہ انہیں ویزوں کے حصول سے چھٹکارا مل سکے۔ وزیراعظم پاکستان ماضی میں اپنی تقاریر میں اکثر اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستانی پاسپورٹ کا وقار بحال کرائیں گے مگر ان کے 3 سالہ دور میں پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی اور بے توقیری میں اضافہ ہوا ہے جس سے حکومت کی معاشی اقتصادی اور سماجی ترقی کے دعوئوں کی تردید ہوتی ہے ،ضرورت اس امر کی ہے موجودہ حکومت اپنے دعوئوں اور وعدوں پر عمل پیرا ہو کر ملکی معیشت کو استحکام بخشنے اور گرین پاسپورٹ کی دنیا میں عزت وتوقیر میں اضافے کیلئے عملی جدوجہد کرے۔