فلم سازوں اور سنیما مالکان میں دُوریاں کیوں ؟

May 17, 2022

اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں ملٹی پلیکسزسینما ہاؤسز کا قیام اس وقت عمل میں آنا شروع ہوا ، جب پاکستانی فلمی صنعت دم توڑ چکی تھی اور نظریہ ضرورت کے تحت بھارتی فلموں کو عام نمائش کے پروانے جاری ہو چکے تھے۔ پاکستان میں بالی وڈ فلموں کے چشم کشا بزنس نے ہی ملکی سرمایہ کاروں کو ملٹی پلیکسز کے قیام پر راغب کیا۔ دریں اثناء جیو فلمز اور ہدایت کار شعیب منصور کی شاہ کار فلم ’’بول‘‘ منظر عام پر آئی، جس نے سنگل اسکرینز کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے گنے چُنے ملٹی پلیکسز پر بھی شان دار اور لانگ رن کام یابی حاصل کی، ماہرہ خان، عاطف اسلم اور حمائمہ ملک کی یہی وہ سپر ہٹ فلم تھی، جس کے حیران کُن بزنس نے کراچی کی فلمی صنعت کو پھر سے زندہ کردیا تھا۔

بول 2011ء میں ریلیز ہوئی تھی ، چوں کہ ’’بول‘‘کے فوراً بعد کوئی پاکستانی فلم مکمل نہ تھی، لہٰذا 2012ء ہماری فلمی تاریخ کا تاریک ترین سال تھا کہ جب پُورے سال میں کسی پاکستانی ساخت فلم کی عام نمائش نہ ہو سکی۔ تاہم بول کی کام یابی کا نتیجہ نِکلا کہ 2012ء میں جو فلمیں زیر تکمیل تھیں یا جو شروع کی گئی تھیں، انہیں برق رفتاری سے مکمل کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2013ء میں ہدایت کار اسمائیل جیلانی کی چنبیلی، جوش، میں ہُوں شاہد آفریدی، زندہ بھاگ، وار، اور لمحہ جیسی فلمیں منظر عام پر آئیں، جن میں چنبیلی، میں ہوں شاہد آفریدی اور وار نے سنگل سکرینز کے ساتھ ساتھ ملٹی پلیکسز پر بھی قابل رشک بزنس کیا، یُوں پاکستانی ساختہ فلموں کے لیے جدید ملٹی پلیکسز میں راہ ہموار ہونے لگی۔

تاہم بالی وڈ فلموں کے بزنس کی رفتار ہماری فلموں سے بہت تیز تھی۔، لہٰذا ملٹی پلیکسز مالکان پاکستانی فلموں کی موجودگی کے باوجود بھارتی فلموں کو ترجیحی طور پر اہمیت دیتے رہتے رہے، کیوں نہ دیتے ان ہی بالی وڈ فلموں کی بدولت تو آمدنی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ تاہم دوسرے درجے کے شہریوں جیسے امتیازی سلوک کے باوجود پاکستان ساختہ فلموں جوانی پھر نہیں آنی، رانگ نمبر، نامعلوم افراد، کراچی سے لاہور، منٹو، ہومن جہاں، ایکڑاِن لاء، زندگی کتنی حسین ہے، جانان، لاہور سے آگے، مہرالنساء وی لب یو، طِیفا ان ٹربل، ڈونکی کنگ، باجی، تین بہادر، رانگ نمبر ٹو، جوانی پھرنہیں آنی ٹو، نامعلوم افراد ٹو، سپر اسٹار، پرے ہٹ لَو، ہیر مان جا، وغیرہ نے ملٹی پلیکسز پر شان دار کام یابیاں حاصل کیں۔

گو کہ پچھلے تین برسوں سے بھارتی فلموں کی نمائش پر بندش ہے۔ دوسری جانب کورونا اور لاک ڈاؤن کے سبب پاکستانی فلمی صنعت بھی بالکل غیر فعال تھی۔ کورونا سے نکلنے کے بعد فلم میکرز نے عید کے موقعے پر بڑی محنت اور اچھی خاصی لاگت سے بنائی گئی چاراُردو فلمیں، گھبرانا نہیں ہے۔، دَم مستم، پردے میں رہنے دو اور چکر سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیں۔ ابتدائی طور پر چاروں ہی فلموں کو شان دار رسپانس ملا اور تین فلموں کے معیار کے حوالے سے بھی عوامی رائے مثبت انداز میں سامنے آئی، لیکن عید کے چوتھے روز یعنی6؍مئی کو ہالی وڈ مووی’’ڈاکٹر اسٹرینج‘‘ کی اسکریننگ کے لیے ملک بھر کے ملٹی پلیکسز سے تمام پاکستانی فلموں کے شوز کر کے غیر ملکی فلم ’’ڈاکٹراسٹرینج‘‘ کو کُھلا میدان دے دیا گیا، یُوں سنیما مالکان کا پاکستانی فلموں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک سامنے آیا۔

یہ موقف بجاکہ اس فلم کی ویورز میں ڈیمانڈ زیادہ تھی، لیکن ایسی صورت میں بھی اسے 40فی صد شوز دے دیے جاتے، جب کہ پاکستانی 4فلموں کو 15-15فی صد شوز تو ملنے چاہئیں تھے، مگر ایسا نہیں کیا گیا، جب کہ کاروباری اسپرٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے سینما مالکان کو یہ احساس بھی کرنا چاہیے تھا کہ ملکی فلموں پر جو سرمایہ لگا ہے، وہ انتہائی محدود ہے، انہیں ملنے والے شوز کی صورت میں کیسے ری کور ہوگا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، سنیما مالکان کی جانب سے پاکستانی فلم میکرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو اس قسم کے رویے کا سامنا پہلے بھی رہا ہے اور سنیما مالکان کی ہرجائی سوچ کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ بھی اس کا یہ ’’حسن سلوک‘‘جاری و ساری رہے گا اور غالب امکان ہے کہ موجودہ حکومت جلد ہی بھارتی فلموں کی نمائش کی راہ ہموار کرلے گی ۔

یُوں ہمارے فلم میکرز کو ستم بالائے ستم کے مصداق بڑے صدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قبل اس کے کہ ایسی صورت حال پیداہو۔ ملکی فلم میکرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو اپنی نئی اور محفوظ حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی۔ مثلاً بات غیر معمولی ہے، لیکن وقت اور حالات کی ضرورت ہے کہ بڑے اور مضبوط پروڈکشن ادارے اور عصرِحاضر کے فعال ڈسٹری بیوٹرز مل کر کراچی اور لاہور جیسے بڑے مراکز میں زیادہ گنجائش والے 3-3سینما ہائوسز اور دیگر شہروں میں کم از کم ایک ایک اسکرین کا قیام اپنے مشترکہ سرمائے سے عمل میں لائیں، تاکہ ایسی غیرمتوقع صورت میں ان کی فلموں کی تسلسل سے اور تواتر سے نمائش جاری رہ سکے۔

تاکہ مختلف شہروں میں جو پہلے سے قائم شدہ سنگل اسکرینز ہیں، انہیں حاصل کرکے ان کی اَپ گریڈیشن کی جائے، مثلاً سندھ کے شہر حیدر آباد کی مثال دوں گا کہ جہاں دو سنگل اسکرین باقی رہ گئی ہیں، ایک بمبینو جو بہت اچھی حالت میں فعال ہے۔ تھوڑی سی سرمایہ کاری کرکے اس کو کیپری کراچی کے معیار پر دیا جاسکتا ہے۔ دوسرا شہاب سینما جوخاصہ قدیم ہے، اگر اس کی حالت بہتر کردی جائے، اس میں نیا ایچ ڈی سسٹم اور اے سی پلانٹ نصب کرکے اس کے ہال میں جدید نشستیں لگا دی جائیں، تو دونوں سینما ہائوسز ملکی فلموں کے لیے محفوظ مسکن ثابت ہوں گے۔