مشکل معاشی فیصلے ہی خوشحالی کی نوید !

May 19, 2022

موسم گر ما کی بڑھتی ہوئی حدت کے ساتھ ساتھ سیا سی در جہ حرارت بھی بڑھ ر ہا ہے بلکہ ملک سیا سی محاذ آرائی اورتصادم کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔عمران خان جب سے وزارت عظمیٰکے منصب سے محروم ہوئے ہیں تب سے مسلسل عوامی رابطہ مہم ہر ہیں۔ وہ شہر شہر عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک میںفوری طور پر الیکشن کرائے جا ئیں۔ عمران خان کی تقاریر میں تلخی بھی ہے اور دھمکی بھی۔ وہ مسلسل دبائو بڑھارہے ہیں اور تقاریر میںان کا ہدف شریف برادران ‘ آصف زرداری اور مو لانا فضل الرحمنٰ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰعدلیہ بھی ہے۔انہوں نے حکومت کو ڈیڈ لائن دی ہوئی ہے کہ 20مئی تک نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جا ئے ورنہ وہ اسلام آ باد مارچ کی کال دیںگے۔

25لاکھ لوگ اسلام آباد لائیںگے اور اس وقت تک نہیںجا ئیں گے جب تک الیکشن کا اعلان نہیںہوگا۔ دوسری جانب حکومت کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ حکومت کا مسلہ یہ ہے کہ یہ ایک مخلوط حکومت ہے۔ وسیع البنیاد اتحاد ہے اسلئے فیصلے کا اختیار کسی ایک جماعت کے پاس نہیںہے۔ مسلم لیگ ن میں دو رائے پائی جا تی ہیں۔ نواز شریف او ر مریم نواز فوری الیکشن کے حق میں ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ پیپلزپارٹی کا واضحپالیسی ہے کہ پہلے اصلاحات پھر انتخابات۔

پیپلز پارٹی حکمران اتحاد میں ڈر ائیونگ سیٹپر نظر آتی ہے۔عمرانخان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کا میاب بنا نے میںچونکہ کلیدی کردار آصف علی زرداری کا تھا اسلئے وہ مستقبل کے سیا سی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جونہی نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سمیت سینئر لیگی قیادت کو لندن بلا یا تو آصف زرداری نے فوراً نواز شریف سے رابطہ کرکے انہیں قائل کیا کہ فوری الیکشن کا مطالبہ تسلیم نہ کیا جا ئے بلکہ پہلے نیب ایکٹ اور انتخابی قوانین میں اصلاحات کو یقینی بنایا جا ئے۔ چیئر مین نیب اور الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کی جا ئے۔

سواسال میںاچھی کا کردگی دکھا کر عوام کے پاس ووٹکیلئے جائیں۔ مسلم لیگ ن مشکل صورتحال میںپھنس گئی ہے کہ وزیر اعظم شہبا ز شریف ہیں اور حکومت کی کا میابی یا ناکامی کا کریڈٹ ان کو جا ئے گا۔ با دی النظر میںجو ملکی حالات ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ معیشت دبائو کا شکار ہے۔ زر مبادلہ کے ذ خائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔ ڈالر کی اڑان پریشان کن ہے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی ڈالر کی قیمت چند روپے نیچے آئی تھی مگر یہ عارضی فیز تھا۔ اس کے بعد ڈالر تاریخکی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں یکم مئی کے بعد کمی آئی تھی لیکن اب دو بارہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔

مہنگائی کا جن بھی قابو میں نہیں آرہا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ سے مہنگائی اور بڑھ جا ئے گی ۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونے جا ر ہے ہیں ۔آئی ایم یف کی شرائط پوری کرنے کیلئے سب سڈیز کو کم یا ختم کرنا پڑے گا۔ یہ مشکل فیصلہ حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔ اس میںتو کئی دوسری رائے ہی نہیں ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال نہایت خراب ہے اور حکومت عوام کو زیادہ ریلیف دینے کی پو زیشن میں نہیںہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی سیا سی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جب اپو زیشن میںتھے تو ان کا سب سے بڑا سلوگن ہی مہنگائی تھا۔ اب یہ سلوگن پی ٹی آئی کے پاس آ جا ئے گا۔ عمران خان ابھی تک امریکی سازش کے بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں لیکن اگر مہنگائی ہوئی تو انہیںایک نیا ایشو مل جائے گا۔ پا کستانی عوام کی قوت خرید بھی جواب دے کی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ ملکی معیشت کا یہ حال موجودہ حکومت نے ایک ماہ میںنہیں کیا۔ یہ عمران خان کی حکومت انہیں ورثہ میں دے گئی ہے لیکن بہر حال یہ فیصلہ حکمران اتحاد کا اپنا ہے کہ انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک لا کر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا اور خود حکومت سنبھالی۔

انہیں حکومت سنبھالنے سے پہلے ملک کی معاشی صورتحال کا بخوبی علم تھا۔ انہوں نے عمران خان کی نا کامیوںکا بوجھ اپنی مرضی سے حکومت کے شوق میں اپنے کندھوں پر ڈالا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میںحکمران اتحاد کو بیک وقت دو چیلنجز ہیں۔ ایک مشکل معاشی صورتحال سے نمٹنا دوسرے عمران خان سے نمٹنا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ عدم اعتماد ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے۔ آئین میں پانچ سال کی مدت اسمبلی کی ہے حکومت کی نہیں۔ اگر حکومت نے پانچ سال ہی رہنا ہے تو عدم اعتماد کی شق آئین سے نکال دیں۔

عمران خان نے ابتدا میںتحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم کیا تھا۔ شیخ رشید احمد کہتے تھے کہ ان کا بڑا بھی 172ووٹ پورے نہیںکرسکتا۔ فواد چہودری اپو زیشن کو للکارتے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیںلاتے ۔ جب اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا تو انہیں شاک لگا اور پھر انہوں نے عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیدیا۔ اب وہ حکومت جانے کا الزام اسٹیبلشمنٹپر بھی لگا رہے ہیں کہ ۔یوں لگتا ہے کہ عمرانخان دانستہ اسٹیبلشمنٹپر دبائو بڑھا رہے ہیں ۔ عمران خان نے بڑا محاذ کھول لیا ہے۔

وہ اسٹیبلشمنٹکے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور چیف الیکشن کمشنر کو بھی ٹارگٹکر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر امریکہ کو۔ شاید امریکہ پر تنقید کا مقصد بھی امریکی حکومت کو دبائو میں لانا ہے کہ ان کی اقتدار میںواپسی کیلئے راہ ہموار کی جا ئے۔عمران خان کی چیف الیکشن کمشنر پر تنقید اسلئے بلا جواز ہے کہ یہ ان کا اپنا انتخاب ہیں جس کی سفارش ان کے قابل اعتماد وزیر شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ راجہ سکندر سلطان کی بطور بیوروکریٹ بہت اچھی شہرت رہی ہے۔ دراصل عمرانخان چیئر مین الیکشن کمشنر پر الزام تراشی بھی انہیں فارن فنڈنگ کیس کے فیصلہ سے قبل دباؤ میں لانے کیلئے کر رہے ہیں۔

عمران خان کی سیا ست تضاد کا شکار ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن تحر یری طور پر سپریم کورٹ کو آ گاہ کرچکا ہے کہ نئے انتخابات سات ماہ سے پہلے ممکن نہیں ہیں ۔عمرانخان جانتے ہیں کہ فوری الیکشن ممکن نہیں ہیں اس کے باوجود احتجاجی سیا ست وہ صرف ا سلئے کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت سے لوگ بھاگ نہ جائیں ۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مزید ارکان بھی پی ٹی آئی کو چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ عمران خان اگر فوری الیکشن کرانے میں سیر یس ہیں تو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرادیں ۔ پنجاب َ سندھ َ بلوچستان اسمبلی سے اپنے ممبران کے استعفے دلوادیں۔

یہ اتنا بڑا بحران ہوگا کہ جس کے سامنے نئی حکومت نہیں ٹہر سکے گی لیکن عمرانخان یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ وہ جلسہ جلسہ کھیلیں گے اور وقت گزاریں گے۔ یہ حکومت شہباز شریف کیلئے پھولوں کی سیج کی بجائے کانٹوں کا بستر معلوم ہوتی ہے۔ شہباز شریف بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں ۔ دن رات محنت کرتے ہیں ۔ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں لیکن زمینی حقائق اپنی جگہ پر ہیں کہ ملکی معیشت دبائو میں ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے۔ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شہری بلبلا رہے ہیں۔ سرکلر ڈیٹ منہ چڑا رہا ہے۔ اوپر سے عمرانخان بوتل سے نکلے ہوئے بے قابو جن کی طرح حکومتی اعصاب پر سوار ہے۔

ایک تجویز یہ ہے کہ عمران خان کو نظر بند کردیا جا ئے یا گرفتار کرلیا جا ئے ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی جانب سے جو ردعمل آئے گا کیا حکومت اس سے نمٹپائے گی۔ یہ تو طے ہے کہ اگر عمرانخان کو سیا سی طور پر کائونٹر نہ کیا گیا تو وہ ملک میںافرا تفری اور عدم استحکام کی فضا پیدا کردیں گے جو معیشت کیلئے تباہ کن ہوگی۔ حکومت کو سیا سی َ معاشی ‘پا رلیمانی اور انتظامی محاذ پرفوری اور مشکل فیصلے کرنے پڑیںگے جن کے نتائج یہ طے کریں گے کہ نہ صرف عمران خان خود حکمران اتحاد کا سیا سی مستقبل کیا ہو گا۔ عمران خان اس وقت مایوسی کا شکار ہیں۔

اقتدار سے محرومی کے بعد وہ جس ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں اس میںوہ کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھا سکتے ہیں ۔ سابق اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے جو مثال قائم کی وہ بہت افسوسناک ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اسپیکر چوہدری پرویزالٰہی اور سیکرٹری کا رویہ غیر جمہوری رہا۔ صدر مملکت اور سابق گورنر پنجاب نے آئین کی بجا ئے پارٹی مفاد کو ترجیحدے کر قابل تقلید مثال قائم نہیں کی۔ سیا سی قیادت نے اب تک جس کردار کا مظاہرہ کیا ہے وہ سیا سی بلوغت اور بصیرت کا مظہر ہر گز نہیں ہے۔ حالات اگر تصادم کی جانب بڑھے تو پھر جمہوری نظام کی بساط لپٹ بھی سکتی ہے۔ پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔