1964 میں ریلیز ہونے والی سسپنس سے بھر پور فلم ’’مسٹر ایکس‘‘

July 05, 2022

ماضی کے سپر اسٹار، اداکار محمد علی، جنہوں نے1962ء میں بہ طور فلم اداکار ’’چِراغ جلتا رہا‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا، انہیں پہلی بار مصنف و ہدایت کار ایس اے غفار نے اپنی جاسوسی، سسپنس فلم ’’مسٹر ایکس‘‘ میں بہ طور ہیروکاسٹ کیا تھا، یہ فلم 1963ء میں سنیما گھروں کی زینت بنی تھی۔ اس فلم میں اداکارہ ناصرہ نے محمدعلی کے مدِمقابل ہیروئن کاکردار کیا تھا، جن دِنوں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں اس فلم کی عکس بندی میں محمد علی حصہ لے رہے تھے، تو فلم ساز و ہدایت کار اقبال شہزاد نے انہیں اپنی فلم ’’شرارت‘‘ میں بہار اور البیلا کے مقابل ہیرو کاسٹ کر لیا تھا۔

یہ بڑے فلم ساز کی فلم تھی، اس لیے برق رفتاری سے مکمل ہو کر ’’مسٹرایکس‘‘ سے پہلے ریلیز ہوگئی تھی، جن دِنوں محمد علی، فلم ’’مسٹر ایکس‘‘ میں ناصرہ کے مدمقابل ہیرو کا رول کر رہے تھے، اِن دنوں اخبارات میں ناصرہ کے ساتھ ان کے رومانس کی خبریں بھی گرم تھیں۔ ناصرہ، جو ایک دل چسپ اورثانوی اداکارہ کے طور پر ہمیشہ کام کرتی رہیں۔ ’’مسٹرایکس‘‘ میں محمد علی جیسے خوبرو اور ہینڈ سم ہیرو کے ساتھ کام ملنے پر بے حد خوش تھیں اور خاص طور پر وہ اُن دنوں ان پر بے حد مہربان تھیں۔

اس یادگار فلم میں محمد علی نے ایک خفیہ پولیس افسر سلیم کا رول ادا کیا تھا۔ جرائم کی دنیا کے ایک خطرناک مجرم ’’مسٹر ایکس‘‘ کی گرفتاری کا ٹاسک پولیس کا محکمہ افسر سلیم کو دیتا ہے۔ ’’مسٹرایکس‘‘ کا ٹائٹل رول پرنس مغل نے اداکیا تھا، یہ کراچی کے ایک اداکار تھے، جنہوں نے فلم ’’چِراغ جلتا رہا‘‘ اور چند دیگر فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ اداکارہ ناصرہ نے اس فلم میں ایک مجبور لڑکی ’’سیما‘‘ کاکردار کیا تھا، جس کے بوڑھے باپ کو ’’مسٹرایکس‘‘ نے قتل کروا دیا تھا اور چھوٹے بھائی کو اپنی قید میں رکھ لیا تھا اور سیما کو اپنے کلب کی ڈانسر بننے پر مجبور کر دیا تھا۔

خفیہ پولیس افسر سلیم کلب میں مجرموں کی تلاش میں ایک رئیس زادہ بن کر آتا ہے اور ناصرہ اُسے اپنا دِل دے بیٹھتی ہے۔ سلیم کی ایک ساتھی لیڈی پولیس فریدہ بھی اس کلب میں ملازمہ بن کر مجرموں کی حرکات کو نوٹ کرتی ہے۔ یہ کردار میں فلم میں اداکارہ راجی نے پلے کیا تھا۔ کلب میں کام کرنے والے دو مسخرے نِرالا اورکمال ایرانی دونوں راجی سے عشق کرتے ہیں۔ راجی کی وجہ سے اکثر دونوں میں لڑائی ہوتی رہتی ہے۔

اداکار ادیب، جو ’’مسٹر ایکس‘‘ کا مالک ہوتا ہے اور کلب کی ڈانسر سیما کو اپنی ہوس کا شکار بنانا چاہتا ہے۔ سیانی آتش، ناصرہ کا بوڑھا باپ، جسے ’’مسٹر ایکس‘‘ نے قتل کروا دیا تھا۔ کلب کا منیجر جاوید جو اصل میں مسٹرایکس ہوتا ہے، جاوید بن کر لوگوں کو دھوکا دیتا ہے۔ یہ کردار پرنس مغل نے کیا تھا۔ سلیم موٹا کراچی کا ایک اداکار ، جوچند فلموں میں نظر آیا۔ جس کا اصل نام سلیم اختر تھا۔ اس فلم میں وہ مسٹر ایکس کے ایک کارندے کے طور پر نظرآیا، جو کلب ڈانسر سیما کا ہمدرد ہوتا ہے۔

فلم ’’مسٹرایکس‘‘ کے ہدایت کار ایس اے غفار جن کا پورا نام سید عبدالغفار تھا، 1930ء میں الٰہ آباد بھارت میں پیدا ہوئے۔ چھ ماہ کی عمر میں والدین کے ہمراہ بمبئی آگئے۔ والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ ایس اے غفار کو بچپن سے باکسنگ اور باڈی بلڈنگ کا شوق تھا۔ بمبئی میں جے ہسپتال کے قریب انہوں نے ٹیپو سلطان کے نام سے ایک باڈی بلڈنگ کا کلب قائم کیا تھا ، جہاں ان کے کئی شاگرد پیدا ہوئے۔

ان کے کسرتی جسم اور فائٹنگ کی وجہ سے ایک روز واڈیا مووی ٹون نے انہیں اپنی فلم ہنرکیسری میں بہ طور باکسر اسسٹنٹ کے طور پر لیا۔ بہ طور فائٹر بمبئی میں ان کی شہرت عام ہوگئی۔ بہادر، جلن، دوستی، بہادر پرتاب، نغمہ صحرا، تمہاری قسم، مددگار، متوالے، خوش رہو اور شیک ہینڈ جیسی بھارتی فلموں میں بہ طور فائٹر اوراداکار کام کیا۔ معروف اداکار کمار نے اُن سے اپنی فلم ’’دلبر‘‘ کی کہانی، مکالمے اور گانے لکھوائے۔ اس فلم میں وہ پہلی بار بہ طور معاون ہدایت کار بھی متعارف ہوئے۔

کمار صاحب کی ایک اور فلم دُھوم دَھام میں بھی وہ معاون ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے۔ بعد ازاں 1950ء میں وہ بھارت چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ سبطین فضلی کی نغمہ بار سپر ہٹ فلم ’’ڈوپٹہ‘‘ میں وہ فائٹ ڈائریکٹر تھے۔ پھروہ لاہور سے کراچی آگئے اور یہاں فاضلی نے اپنی سندھی فلم ’’پردیسی‘‘ کے لیے انہیں بہ طور ڈائریکٹرمنتخب کیا۔

یہ فلم 1958ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے اداکاری اورگلوکاری بھی کی۔ ایسٹرن اسٹوڈیو کے مالک سعید ہارون نے بہ طور ڈائریکٹر مسٹرایکس کے لیے انہیں منتخب کیا۔ مسٹر ایکس میں انہوں نے پہلی بار اداکار محمد علی کو ہیرو اور اداکارہ ناصرہ کو ہیروئن کاسٹ کیا۔، جب کہ میرے لال میں انہوں نے صوفیہ بانو کو بہ طور ہیروئن متعارف کروایا۔ اداکارہ نفسیہ نور کو بھی پہلی بار انہوں نے ہی متعارف کروایا۔ معروف اداکار مصطفٰی قریشی کو بھی انہوں نے اپنی سندھی فلم ’’پردیسی‘‘ سے متعارف کروایا۔ کاروباری لحاظ سے مسٹرایکس ایک ناکام فلم ثابت ہوئی۔

ہدایت کار ایس اے غفار نے فلم کا ٹائٹل ایک گمنام اور ایکسٹرا اداکار پرنس بشیر مغل سے کروایا، جب کہ اس دور میں اداکار ساقی اس طرح کے کرداروں میں اپنی مہارت رکھتے تھے۔ فلم کا میوزک مکمل ہی اوسط درجے کا تھا، جس کی وجہ سے کوئی گانا ہٹ نہ ہوسکا۔ اداکارہ ناصرہ بہ طور ہیروئن بالکل ناکام رہیں، ان کی جگہ اگر فلم اسٹار نیلو یا شمیم آراء کے ساتھ محمد علی کی جوڑی بنائی جاتی تو اس فلم کا رزلٹ کچھ بہتر نکلتا۔ ایک اچھی سسپنس سے بھرپور کہانی نئے تجربات کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔