تخت لاہور: ن لیگ کیلئے اگلا الیکشن بہت بڑا چیلنج

August 04, 2022

بزرگ سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی نے سابق صدر آصف علی زرداری کے متعلق ایک بار کہا تھا کہ ان کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنا ضروری ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی اس بات کو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے تمام سٹیک ہولڈر سمجھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے بھی ہیں جو شاید سمجھ کر بھی کچھ نہیں سمجھے یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ سابق صدر آصف زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلاشبہ ایسی شخصیت کے مالک ہیں کہ جب وہ اپنے سیاسی حریفوں کے پاس بھی جاتے ہیں اور کوئی وعدہ کرتے ہیں تو حریف بھی ان کی باتوں پر یقین کرتےہیں کہ وہ جوو عدہ کریں گے اس کو ہر صورت پورا کریں گے۔

ایک عالمی جریدے نے ان کی تعریف یوں کی کہ نائن الیون کے بعد پاکستانی سیاست میں جس سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ آصف علی زرداری کی طرف سے دیکھنے میں آیا کہ جس سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیاست کے ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں مات دینا آسان نہیں۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے پنجاب میں کچھ یوں کرکے دکھایا کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے بھی جو چاہا منوالیا۔ چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہ سے رات سو ایک بجے وہ اپنی گاڑی میں وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نکل رہے تھے تو شاید لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے کتنا بڑا اپ سیٹ کردیا ہے۔

وزارت اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کے حوالے سے عدالتی فیصلہ ایک طرف لیکن بہرحال انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کی نیندیں خراب کر رکھی تھیں۔ ویسے دیکھا جائے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ سکیورٹی اداروں کو بھی سندھ کے حالات کے متعلق گہری تشویش لاحق تھی تو صدر آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر اس ملک اور قوم پر بڑا احسا ن کیا۔ کسی کو ان کی ذات سے اختلاف ہو یا ان کو کرپٹ لیڈر سمجھتا ہو لیکن پھر بھی ان کی سیاسی بصیرت کا مدح ضرور ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ زرداری صاحب کی بات مان کر وفاق میں حکومت بنانے کا فیصلہ ان کی جماعت کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے انتخابات میں جانے سے مسلم لیگ (ن) کو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا کہ اب ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے جتنا سیاسی نقصان (ن) لیگ کا ہوا کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوا جس کا ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات میں ملتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) تخت لاہور پر اپنا 3دہائیوں سے زائد کا قبضہ گنوا بیٹھی اب اگلے الیکشن میں پنجاب میں بھاری اکثریت سے جیتنا ن لیگ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

لیکن آصف علی زرداری کونئے انتخابات کے اعلان پر آمادہ نہیں کرسکی۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے لیکن تمام تر مہنگائی سیاسی بحران اور وفاق میں اتحادی ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دیا۔ سمجھنے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی یا ان کا بس نہیں چل رہا یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتے لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کی بحالی کے باوجود آصف علی زرداری کی سیاسی چالیں ہی تاحال کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔

اپنے بیٹے اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کے خواب کی تکمیل کے لئے انہوں نے مستقبل کی حکمت تیار کر رکھی ہے۔ بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ کا منصب دلا کر ان کی سیاسی اور عالمی سطح پر گرومنگ کرنا بھی صدر زرداری کی سٹرٹیجی کا حصہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے بھی ان کے تعلقات اچھے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ بلاول بھٹو کو جلد وزیر اعظم بنا کر ہی دم لیں گے اور یہ شاید ان کا آخری سیاسی دائو ہوگا۔ اب تو بلاول بھٹو بھی ایک زرداری سب پر بھاری کہتے نظر آتے ہیں۔

پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پی ٹی آئی کی طرف سے ’’ایک کھلاڑی سب سے بھاری‘‘ کا نعرہ لگ چکا ہے جس سے اب تک یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں آئندہ الیکشن میں ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے مخالفین بھی مان رہے ہیں ان کا بیانیہ سچا ہے یا جھوٹا لیکن بہرحال سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آصف زرداری پنجاب میں انٹری ڈال چکے ہیں اور حمزہ شہباز شریف کو دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ منتخب کروا کر اپ سیٹ بھی کر چکے ہیں۔ ان کی سیاسی چالیں ایسی کارگر ثابت ہو رہی ہیں کہ عمران خان کو بھی انہیں اتنا آسان ٹارگٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔

2004ء میں عمران خان سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی جلا وطنی کے دوران انہیں مسلم لیگ (ن) کے سنٹرل لندن کی ڈیوک سٹریٹ میں واقع انٹرنیشنل سیکرٹریٹ میں ملنے گئے تو انہیں سیریس (SERIOUS)نہیں لیا گیا۔ اسی طرح اب آصف زرداری کے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے خواب کو عمران خان ’’سیریس‘‘ نہیں لے رہے۔ عمران خان سمجھدار ہوں گے لیکن شاید سمجھ نہیں پا رہے کہ ایک زرداری واقعی سب پر بھاری ہے۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان اور پنجاب کی سیاسی صورتحال پر خود کو مفاہمت کے لئے پیش کیا۔ (ن) لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اتحادی ہونے کے ناطے تمام ذمہ داریوں کو بھی قبول کیا۔

صدر زرداری کمٹمنٹ کے پکے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’’سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘‘ اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کو اپنے ساتھ اتحاد پر مجبور کر دیں۔ بہرحال یہ سیاست ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتاہے۔ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں عوام کی طرف سے پی ٹی آئی کے لئے جنون ہمیشہ کے لئے نہیں اس لئے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی مقبول ترین سیاسی جماعت کی بساط کب الٹ جائے کچھ پتہ نہیں۔