سیلاب متاثرین کیلئے عملی امداد نہ ہونے کے برابر

September 22, 2022

جنوبی پنجاب میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر سیاسی جماعتوں کی بے حسی کھل کر سامنے آچکی ہے، حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اور خود تحریک انصاف کی طرف سے سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے لئے کوئی عملی کوششیں سامنے نہیں آ سکیں، اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا دو بار دورہ کر چکے ہیں ، مریم نواز بھی دو بار دورے پر آئی ہیں، جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہی نے صرف ایک بار چند گھنٹے کے لئے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے، مگر ان دوروں کا سیلاب زدگان کو اس لئے کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ عملی امداد تاحال کسی طرف سے بھی دیکھنے میں نہیں آ ئی۔

ان سیلاب زدہ علاقوں میں ہزاروں مکانات تباہ ہو چکے ہیں،خیموں کی شدید کمی ہے ،کھلے آسمان تلے ہونے کی وجہ سے سیلاب زدگان میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، خوراک کے مسائل ہیں، غرض ایک نفسا نفسی کی کیفیت ہے ، جو ان علاقوں میں نظر آتی ہے، این ڈی ایم اے ہو یا پی ڈی ایم اے ، وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت ، نیشنل فلڈ ریسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سنٹر ہو یا دیگر ادارے ، ان کی طرف سے ابھی تک ک کوئی ایسا ہنگامی پلان سامنے نہیں آیا، جو ان سیلاب زدگان کی مشکلات کو کو فوری کم کرنے کے لئے بنایا گیا ہو، ابھی تک کئی علاقوں میں تو ریلیف کا کام بھی مکمل نہیں ہوا ، بحالی کا کام کب شروع ہوگا ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

چودھری پرویز الہی

اگر فلاحی تنظیم نہ ہوتیں ، مختلف شہروں سے لوگ امدادی سامان لے کر سیلاب زدہ علاقوں میں نہ پہنچتے، تو نہ جانے اب تک کتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہوتا ، سیلاب پر سیاست تو سبھی کر رہے ہیں، حکومت کے وزراء، عمران خان کو یہ طعنے دیتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی بجائے جلسے کر رہے ہیں، دوسری طرف عمران خان، وزیر اعظم شہباز شریف پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کو چھوڑ کر کر بیرون ملک دوروں پر نکلے ہوئے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان باتوں سے سیلاب متاثرہ ہزاروں افراد کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے ؟جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی ، یہاں سے تعلق رکھنے والے وزراء ،اور سیاسی رہنما عملی طور پر سیلاب زدگان کی مدد کرنے سے قاصر رہے ہیں، اس کا اظہار باربار ان احتجاجی مظاہروں میں ہوتا ہے، جو سیلاب زدگان میڈیا کے سامنے کر رہے ہیں۔

جنوبی پنجاب اگرچہ سیلاب سے اتنا متاثر نہیں ہوا، جتنا سندھ اور بلوچستان میں تباہی ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود پنجاب حکومت اتنے بڑے پیمانے پر اور بحالی کا کام نہیں کر رہی ،جتنا ہونا چاہیے، میڈیا میں خبریں آنے پر پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے ڈیرہ غازی خان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ تو کیا، مگر پیپلز پارٹی کی طرف سے امدادی سامان پہنچایا اور نہ ہی کسی قسم کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا، صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے سیلاب زدگان امداداور بحالی کے منتظر ہیں، جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے_گزشتہ ہفتہ یہ افواہ اڑی کہ جہانگیر ترین اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود میں مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے ملاقات ہوئی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ جہانگیر ترین پیپلز پارٹی میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔

ایک خبر یہ بھی آئی کہ جہانگیر ترین اپنی سیاسی جماعت بنانے جا رہے ہیں، جس کے لیے وہ سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، بعض حلقوں نے یہ کہا کہ جہانگیر ترین اور مخدوم احمد محمود میں جو فیملی اختلافات تھے، وہ ختم ہوئے ہیں، جس کے بعد یہ ملاقات ہوئی ہے ، تاہم مصدقہ ذرائع کے مطابق دونوں رہنما، جو قریبی رشتہ دار ہیں ، کے درمیان تقریباً تین سال قبل ہی صلح ہوگئی تھی اور ان کا ایک دوسرے کی طرف آ نا جانا تھا ، حالیہ ملاقات برسبیل تذکرہ تھی اور اس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے، نہ ہی جہانگیر ترین پیپلزپارٹی میں جا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی جماعت بنا رہے ہیں ،ابھی انہوں نے اپنے تمام آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں، ان کا جھکاؤ اب بھی تحریک انصاف کی طرف ہے ،لیکن چونکہ تحریک انصاف میں ان کی واپسی آسانی سے ممکن نہیں ہے اور پنجاب حکومت گرانے میں انہوں نے جو کردار ادا کیا تھا، اس کی وجہ سے ان کے لیے عمران خان کے دل میں نرم گوشہ پیدا نہیں ہو رہا، اس لیے معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔

ادھر ملتان میں ایک بار پھر قومی حلقہ 157 کی انتخابی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، اس حلقہ میں انتخاب کو پولنگ ڈے سے صرف دو دن پہلے الیکشن کمیشن نے دوسرے حلقوں کے ساتھ سیلاب کو بنیاد بنا کر ملتوی کردیا تھا، حالانکہ ملتان میں ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں 9 اکتوبر کو انتخاب کرانے اعلان کیا، مگر جب یہ اعتراضات سامنے آئے کہ اس دن عید میلاد النبی متوقع ہے، تو الیکشن کمیشن نے دوسرے ضمنی انتخابی حلقوں کی طرح اس حلقہ میں بھی 16اکتوبر کو پولنگ کرانے کا اعلان کیا ہے، اس حلقے میں انتخابی مہم زوروں پر تھی اور عمران خان مقررہ تاریخ سے دو دن پہلے یہاں جلسہ کرکے ماحول کو گرما چکے تھے، مگر اسی دن اس حلقہ میں انتخاب ملتوی کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ کہ سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی بڑے امیدواروں کے طور پر ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں، اب دوبارہ انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے اور جوڑ توڑ کر سلسلہ پھر وہیں سے شروع ہوا ہے، جہاں ٹوٹا تھا، گیلانی خاندان پر امید ہے کہ وہ یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے گا جبکہ قریشی خاندان جس نے یہ نشست خالی کی ہے۔

اس بار یہ تاریخ رقم کرنا چاہتا ہے کہ ان کے گھرانے کی ایک خاتون امیدوار نے گیلانی خاندان کے چشم وچراغ کو شکست دی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ انتخابی مہم کیا رخ اختیار کرتی ہے، کیا عمران خان ان ایک بار پھر جلسہ کے لیے ملتان آتے ہیں ؟ کیا سید یوسف رضا گیلانی، آصفہ بھٹو زرداری کو یہاں جلسہ کرنے کے لئے آمادہ کر پاتے ہیں ؟ اور کیا ملتان کے مسلم لیگی حلقے علی موسی گیلانی کی دل سے حمایت کرکے انہیں جتواتے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے ہمیں آئندہ چند دنوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔