جلد انتخابات کا مطالبہ: حکومت دباؤ میں نہیں آئے گی

September 29, 2022

ملک کے طول و عرض میں سیلابی پانی ابھی بھی موجود ہے 14 جون سے شروع ہونے والی بارشوں نے کے پی کے ،سندھ، بلوچستان پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے غریبوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ساڑھے تین کروڑ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو کھلے آسمان تلے اور سیلابی پانی کے اندر دن رات گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سمیت ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ اقوام عالم کو ماحولیاتی آلودگی کا نشانہ بننے والے پاکستان کی بحالی کی طرف متوجہ کرنے میں کتنے کامیاب رہے ،آئندہ ایک دو ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی تین ٹیلی تھون کرکے گیارہ ارب روپے کے وعدے حاصل کر لیے ہیں مگر بدقسمتی دیکھئے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی اور اے این پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں عملاً کہیں نظر نہیں آ رہیں، ہزاروں جنازے اٹھائے والے متاثرین ِ کا گلہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پارلیمنٹیرینز نے متاثرہ علاقوں میں آ کر ان کے غم میں حصہ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، غیر سیاسی سماجی تنظیموں کے علاؤہ جماعت اسلامی کے کارکنان اور قائدین متاثرین سے ملاقاتیں کر کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے غم بھی کم کرنے میں کوشاں ہیں، متاثرہ علاقوں میں سرکاری سرپرستی میں اساتذہ، ڈاکٹروں اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکار جو فرض ادا کر سکتے تھے وہ مفقود نظر آرہا ہے۔

سیلابی پانی سے ڈینگی، ڈہریا سمیت دیگر امراض پھوٹ رہے ہیں، اموات میں غیرمعمولی اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، سردی کی آمد آمد ہے، گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں تو بغیر چھت کے رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے مگر سرکاری سطح پر ابھی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی کہ متاثرین کو اپنی زندگی محفوظ ہوتی نظر آئے، سیاسی انتشار اور پولرائزیشن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے صرف اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی متحارب سیاسی گروہ ایک دوسرے کو ذلیل و خوار اور رسوا کرکے وطن عزیز کا "نام بلند "کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

مقروض تو عالمی سطح پر قیام پاکستان کے فورا بعد ہوگئے تھے مگر اوقات سے زیادہ قرضوں میں ہمارے تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں نے مل کر جکڑا ہے، اعلی تعلیم یافتہ بیوروکریسی بھی صرف باتیں کرتی ہے، وطن سے محبت قرض سے حاصل کی گئی رقم پر عیاشی کرکے دکھائی جا رہی ہے، وفاقی کابینہ 73 ارکان پر مشتمل ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان مقتدر چوروں اور ڈاکوؤں سے گفتگو کرنے کو تو تیار نہیں مگر 266 سکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل سکواڈ کے حفاظتی حصار میں سرکاری بلٹ پروف گاڑی اور ہیلی کاپٹر سے ملک گیر سفر ان کی مجبور ی بن چکا ہے، وزیر اعظم کی سائیکل پر سواری اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں بدلنے کی باتیں بھی ماضی بعید کا حصہ بن چکی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ پارلیمنٹ عدلیہ بیوروکریسی اور میڈیا کے کردار بارے میں عوام میں مسلسل مایوسی بڑھ رہی ہے، آسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں پر اعتماد میں کمی واقع ہوئی ہے حالانکہ قومی اداروں پر اعتماد وقت کی اہم ضرورت ہے ،سیاسی قیادت کو کسی غیر ضروری حمایت کی توقع نہیں کرنی چاہیے، اسٹیبلشمنٹ، اعلی عدالتوں اور دیگر اداروں کو بھی کسی بھی موقع پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ کسی خاص سیاسی جماعت گروپ یا شخصیت کو سپورٹ کرتے ہیں ،غیر جانبداری کا صرف تاثر کافی نہیں عملاً غیر جانبداری ہونا بھی ضروری ہے، قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے، عدلیہ تشریح کی مجاز ہے ،قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی موجودگی تک تو صورتحال شاید اتنی گھمبیر نہ تھی مگر 1977ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ ،افسر شاہی اور عدلیہ الزامات کی زد میں آگئی تھی پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اعلانیہ عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

نواز شریف کی پہلی حکومت کی بحالی سپریم کورٹ کا ایک بڑا فیصلہ تھا جسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ مل سکی اور بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف بھی صدر غلام اسحاق خان کو حاصل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار 58 ٹو بی کے تحت گھر بھیج دئیے گئے، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار 1989ء میں بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے الزام میں" آپریشن مڈ نائٹ جیکال" کے کرداروں پر مقدمہ چلایا گیا۔

ایک طرف سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے جمعرات 29 ستمبر تک اتحادی حکومت گرنے کی پیشگوئی کی تھی، کیا پی ٹی آئی کارکن انہیں پیر مانیں گے؟ یا ایک سیاستدان کی خواہش سمجھتے ہوئے مجبورآ برداشت کریں گے، دوسری طرف عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد 15 اکتوبر سے 15 نومبر کو تبدیلی کا دورانیہ قرار دے رہے ہیں ۔ پرویز خٹک کی یہ بھی پیشگوئی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت خود مستعفیٰ ہوگی اور الیکشن کا بھی جلد اعلان ہوجائے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزراء کی گفتگو پر مبنی آڈیو لیکس نے وزیر اعظم ہاؤس کے بھی غیر محفوظ ہونے کا تاثر قائم کر دیا ہے جہاں گفتگو ریکارڈ کرکے تمام حساس اداروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، وزیر داخلہ کہتے ہیں، نوٹس لے لیا گیا ہے تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے ساتھ بھی اس پر مشاورت کر لی ہے، رانا ثناءاللہ نے دعوی کیاہے کہ سیکڑوں آڈیوز بھی نکل آئیں تو کوئی لفظ ایسا نہیں ہوگا جس پر پی ایم ایل( ن) کو شرمندگی ہو جبکہ دوسری طرف مبینہ امریکی سائفر سے متعلق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی آڈیو بھی سامنے آگئی جس میں عمران کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ اب ہم نے صرف کھیلنا ہے امریکہ کا نام نہیں لینا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب مدینہ منورہ کی طرح لندن میں بھی سیاسی مخالفین کی ہلچل کا نشانہ بن گئیں مگر انہوں نے جس جرآت، استقامت اور مضبوط اعصاب سے دشنام طرازی کا سامنا کیا اس پر انہیں داد نہ دینا صحافتی بددیانتی ہو گا،مریم اورنگزیب پچھلے ناخوشگوار واقعے کی طرح لندن واقع میں ملوث پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو بھی معاف کر کے بچوں کے سیاسی درگذر کی بنیاد مضبوط بنانیں گی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود اتحادی حکومت انتخابات حکومتی مدت مکمل ھونے اور چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر آئین کے مطابق کرنے پر متفق ہے، سینٹر اسحاق ڈار کی جلاوطنی ختم کر کے اتحادیوں نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔