اپنے دور کے کامیاب مصنف، نغمہ نگار اور مکالمہ نویس ’’حزیں قادری‘‘

October 04, 2022

پنجابی باکس آفس کی جب بھی تاریخ مرتب کی جائے گی، تو سب سے قدآور شخصیت حَزیں قادری کا نام سرفہرست آئے گا، جن کے تذکرے کے بغیر پنجابی فلموں کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اُن کی لکھی ہوئی فلمی کہانیاں، گیت، منظر نامے اور مکالمے پنجاب کے دل کش اور صدیوں سے رواں دواں ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کو بہ طور مصنف فلم کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی تحریر اور گیتوں میں اُس سوہنے پنجاب کےباسیوں کے ان پیچیدہ اور سنگین مسائل کو جہاں اپنی کہانیوں کا محور بنایا، تو وہاں ان کے لکھے ہوئے گیتوں میں انسانی رشتوں اور جذبات کے رنگ بھی ملتے ہیں۔

یہ وہ نام ہے، جو فلم کے اسکرین پر بڑی شان سے ابھرا، جس کی روشنی نے پنجاب کے ثقافتی اور تہذیبی معاشرے کی صحیح اور مؤثر عکاسی کرتے ہوئے اُسے اپنے اصلاحی قلم سے منور کیا۔ پہلی بار فلم کے پردے پر ایک عام شخص کو اپنی اہمیت اور مسائل کا معلوم ہوا۔ صدیوں سے عیاش، جاگیرداروں اور ظالم چوہدریوں کا شکار ہونے والے لاکھوں محنت کش، کسانوں اور مزدوروں کو ان کی لکھی ہوئی کہانیوں میں جینے کا ایک نیا راستہ دکھایا اوران مکروہ چہروں پر پڑے صدیوں کے پردے چاک ہوگئے جنہوں نے پنجاب کے عوام کا استحصال کیا ہوا تھا۔

حزیں قادری جن کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 1927ء میں وہ گجرانوالہ کے نزدیک ایک گائوں چک تہولی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام حسین، انہیں دینی تعلیم دلوانے کی غرض سے لاہور لے گئے، جہاں ان کا دل نہ لگا اور وہ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور کے ایک مقامی اسکول میں چھٹی جماعت میں آگئے۔ اسی اسکول میں معروف مزاحیہ اداکار ظریف مرحوم بھی پڑھا کرتے تھے۔ کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے دونوں میں دوستی ہوگئی۔ ایک روز ظریف کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو گئے، لیکن وہاں ان کی بات نہ بنی اور پھر وہ فلمی دنیا کی طرف مائل ہوگئے۔

یہ پاکستان کی فلمی صنعت کا ابتدائی دور تھا، بہ طور نغمہ نگار 1948ء میں انہوں نے لاہور میں بننے والی ایک فلم ’’ٹوٹے تارے‘‘ میں گیت نگاری سے کیا۔ یہ فلم فسادات کی نظر ہوکر ریلیز نہ ہو سکی۔ اس عرصے میں انہیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ انہوں نے حمد باری اور نعت مقبول لکھی، جنہیں عوام میں کافی پسند کیا گیا۔

تحریک آزادی اُن دنوں میں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود آیا اوراس طرح فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ حزیں قادری بھی فلمی دنیا میں اپنی قسمت آزمانے داخل ہوئے۔1950ء کا ذکر ہے، جب نوبہار فلمز کے بینر تلے ایک فلم ’’دوآنسو‘‘ بنائی گئی، جس میں صبیحہ سنتوش اور شمیم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کو پاکستان کی پہلی کام یاب اردو فلم کا اعزازحاصل ہوا۔

اس فلم میں بہ طور ہدایت کار پہلی بار انور کمال پاشا کا نام بھی فلم کے ہدایت کار مرتضیٰ جیلانی کے ساتھ آیا۔ حزیں قادری نے بہ طور نغمہ نگار اس فلم کے تین گیت لکھ کر باقاعدہ فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اُردو فلم سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس فنکار کو آنے والے دنوں نے پنجابی سینما کے سب سے مقبول اور کام یاب مصنف بنادیا۔ 1952ء میں نمائش والی پنجابی فلم ’’نتھ‘‘ کے ٹائٹل پر حزیں قادری کا نام بہ طور مصنف مکالمہ نویس اور نغمہ نگار پہلی بار آیا۔

اس فلم میں حفیظ جہاں اور حسیب نے مرکزی کردار کیے۔ نئی ہیروئن اور نئے ہیرو کی یہ فلم فلاپ ہوگئی۔ حزیں قادری نے اپنی پہلی ناکامی پرغور کیا کہ یہ ناکامی کیوں ہوئی اور پھر انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں بننے والی پنجابی فلموں کے روایتی رومانی موضوعات میں جدت طرازی پیداکرتے ہوئے اپنی کہانیوں، گیتوں کو ایک نیا اسلوب دیا، جس نے انہیں عوامی سطح پر بے حد پزیرائی دلائی۔ لوگوں نے انہیں پنجابی ادب و کلچرل کا شیکسپیئر کہا۔

حزیں قادری کی کام یابی کے سفر کا آغاز1955ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’پاٹے خان‘‘ سے ہوا، جس میں مزاح کاایک نیا انداز دکھایا گیا، جس سے مزاحیہ اداکار کو اپنی ایک نئی حیثیت ملی جو فلم کے ہیرو سے کم نہ تھی۔

اداکار ظریف نے پاٹے خان کا یاد گار کردار کیا، پہلی بار مزاحیہ اداکار پر المیہ گیت فلمایا گیا ۔ پاٹے خان کی کام یابی میں جہاں ہدایت کار ایم اے رشید ، اداکار ظریف ،نور جہاں اور موسیقار اختر حسین اکھیاں کا نام آتا ہے۔ وہاں فلم کی کہانی اور اسکرپٹ رائٹر حزیں قادری کو بھی کریڈٹ ملتا ہے، جنہوں نے دیہی اور شہری زندگی کے شب و روز پہلی بار اسکرین پر ایک نئے انداز سے پیش کیے۔

یہی وجہ تھی کہ ان کے تحریر کردہ کردار اور اسکرپٹ ،مصنف نگاری کا مرقع زریں بن کر اسکرین پر نظر آئے، ان کے لکھے ہوئے چند ناقابل فراموش کرداروں میں 1956ء کی پنجابی فلم ’’پینگاں‘‘ کا کسائی پہلوان جو اداکار ظریف نے پلے کیا تھا، جو اپنے ہمسایوں سے اُدھار لےکر چھابڑی لگاتا ہے۔ ایک خوب صورت انداز تھا۔ 1959ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’بچہ جمہورا‘‘ کی کہانی پنجاب کے دیہی علاقوں کے پس منظر میں لکھی گئی ایک اصلاحی کہانی تھی، جس کا مرکزی کردار ایک مداری تھا، جو میلوں ٹھیلوں میں اپنے کرتب دکھا کر اپنے خاندان کا پیٹ بھرتا تھا۔

’’بچہ جمہورا‘‘ کا ٹائٹل رول پہلی بار ایک چائلڈ اسٹار نے کیا، جو ظریف کا حقیقی بیٹا پپو ظریف تھا۔اس کردار اسے صدارتی ایوارڈ ملا۔ 1960ء میں ہدایت کار اسلم ایرانی نے ’’بچہ جمہورا‘‘ کے بعد اپنی فلم بہروپیا کا اسکرپٹ حزیں قادری سے لکھوایا۔ اس بار پھر اداکار ظریف، فلم کے ٹائٹل رول میں بے حد کام یاب رہے۔ 1961ء میں ہدایت کار اسلم ایرانی کی تیسری کام یاب پنجابی فلم ’’مفت بر‘‘ میں حزیں قادری کی کہانی کو عوام نے کام یابی کی سند عطا کی۔ اسی کہانی پر 1973ء میں ہدایت کار پرویز ملک نے بلاک بسٹر اُردو فلم ’’انمول‘‘ بنائی جس میں شاہد اور شنبم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد پنجابی باکس آفس پر حزیں قادری کا نام بہ طور مصنف کام یابی کی ضمانت سمجھا گیا۔ ابتدائی دور میں چند ایک اُردو فلموں کے اسکرپٹ بھی انہوں نے تحریر کئے۔ 1957ء کی فلم ’’پھولے خان‘‘ 1958ء کی اُردو فلم نیا زمانہ یہ دونوں فلمیں یادگار ہیں۔ پنجابی فلموں میں انہیں بے حد کام یابی ملی۔ ان کی چند یادگار کام یاب پنجابی فلموں پر بات کی جائے تو ’’چوہدری‘‘ 1962ء ہدایت کار مظفر طاہر، جس میں مزاحیہ اداکار آصف جاہ نے چوہدری کا کردار کیا۔ یہ ایک ایسے چوہدری کی کہانی تھی، جس کی بیوی نکاح والے دن مر جاتی ہے، توہم پرستی جیسی سماجی اور مذہبی برائی کے خلاف ایک اصلاحی کہانی پر مبنی اس فلم کو عوام نے بے حد کیا۔

’’موج میلہ‘‘ 1963ء ہدایت کار اسلم ایرانی کی اس کام یاب پنجابی فلم میں ایک ایسی ماں کی کہانی پیش کی گئی، جس کا اکلوتا بیٹا بُرے ماحول کی وجہ سے بُرا بن گیا تھا، کالو جٹ کا یادگار کردار اداکار مظہر شاہ کا پہلا کام یاب تعارف اسی فلم میں کروایا۔ اس فلم میں ان کی بڑک ’’تیری لاش نوں مچھیاں ہی کھان گی‘‘ بھی عوام میں بہت مقبول ہوئی تھی۔

چاچا خامخواں 1963ء ہدایت کار اسلم ایرانی اور حزیں قادری کی ایک اور یادگار کام یاب پنجابی فلم ثابت ہوئی، جس میں اپنے دور کے مزاحیہ اداکار اے شاہ شکاپوری نے ٹائٹل رول اداکیا، تو ان کے مقابل پہلی بار مزاحیہ اداکارہ چُن چُن نے پھوپھی خیرخواہ کاکردار ادا کرکے اسکرین پر فلم بینوں کوخوب ہنسایا۔ اس فلم کے ایک منظر میں اداکارہ ناصرہ جو ایک آوارہ طوائف کے کردار میں برقعہ پہن کر جب فلم کے ایک کردار خلیفہ (آصف جاہ) کے سامنے آتی ہے، تو وہ اس کا برقعہ اُتار کر کہتا ہے۔’’یہ آبرو باختہ عورتیں بھی برقعہ پہن کر جب نکلے گیں تو پھر مجھے یہ بتائو کہ ہماری شریف بہو بیٹیاں کیا پہنیں۔ یہ معاشرے کے اُن لوگوں پر مصنف کا ایک ایسا طنز ہے، جنہوں نے اپنے مکروہ کاروبار کے لیے اس مقدس برقعہ کا پامال مجروح کیا ہے۔

’’ڈاچی‘‘ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایت کار اسلم ایرانی اور مصنف حزیں قادری نے ایک بار پھر عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھی۔ پہلی بار اس کہانی میں پنجاب میں اونٹنی کا دودھ بیچنے والے خانہ بدوشوں کو کہانی کا مرکز بنایا گیا۔ اس کے ساتھ پنجاب بھر کے کوچوانوں کو اس کہانی کا حصہ بنایا گیا، کوچوان بہادری کا کردار، اپنے دورکے معروف کام یاب اداکار لالہ سدھیر نے ادا کرکے کوچوانوں کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ خاص طور پر حزیں صاحب کا ایک لکھا ہوا عوامی گیت کوچوانوں کے لیے تحفہ ثابت ہوا، جس کے بول تھے ۔

’’رج کے غریب ترا کدوں روٹی کھائے گا

اُو دن میرے مولا دس کیڑے دن آئے گا

جدوں گلہ نہ رہوے گا ہتھ تنگ دا

او ٹانگے والا خیر منگدا اے‘‘

1964ء میں حزیں قادری نے ہدایت کار اسلم ایرانی کے لیے پنجابی فلم ہتھ جوڑی لکھی، جس نے پنجابی باکس آفس پر کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ کہانی کے مرکزی خیال پنجاب کے وہ بہادر لوگ تھے، جنہیں انگریز حکومت نے اپنے علاقوں میں خود مختاری کے حقوق دیئے ہوئے تھے۔ فلم کی کہانی کے تین اہم کردار چوہدری حاکم، ہیرا اور چوہدری بدروتھے، جو بالترتیب اداکار اجمل، اکمل اور مظہر شاہ نے اداکیے، اسی فلم کی کام یابی سے اکمل اور مظہر شاہ کی جوڑی ہٹ ہوئی، پھران دونوں نے متعدد فلموں میں اپنی کام یابی کا سکہ جمایا۔

1984ء میں دوبارہ’’ اُچا شملہ جٹ دا‘‘ کے نام سے اس کہانی کو ہدایت کار اسلم ایرانی نے فلم بنائی، مگر اس مرتبہ فلم کا اسکرپٹ ناصرادیب سے لکھوایا، جو کام یاب نہ ہوسکی اُردو فلموں کے معروف ہدایت کار حسن طارق نے 1965ء میں پنجابی فلم ’’پھنے خان‘‘ کا اسکرپٹ حزیں قادری سے لکھوایا، جس کا مرکزی کردار ایک بزدل نوجوان لاوا تھا۔ علائو الدین مرحوم نے اس کردار میں شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ ’’ہتھ جوڑی‘‘اور’’ پھنے خان‘‘کی کام یابی نے حزیں قادری کو سکّہ بند رائٹر بنا دیا۔

اُس دور میں وہ مہنگے ترین مصنف بن گئے۔ بھریا میلہ، گونگا، لاڈو، اباجی، یار مار، جگری یار، چاچا جی، روٹی، چن مکھناں، اِک سی ماں، بائو جی، کنجوس، سجن پیارا، چن ویر، جند جان، عشق نہ پچھے ذات، ترے عشق نچایا، چن سجناں جیسی بہت سی کام یاب پنجابی فلمیں ان کے کریڈٹ پرآئیں۔ 1970ء میں ان کی لکھی ہوئی پہلی کلر پنجابی فلم ’’چڑھدا سورج‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ یہ پنجاب میں فنِ کُشتی اور پہلوانوں کے موضوع پر تھی، جس میں اداکار ساون، سدھیر اور اقبال حسن نے ناقابل فراموش کردار ادا کیے تھے۔ پرویز پروڈکشنر ، بھٹی پکجرز کے لیے حزیں قادری کا نام لازمی ہوگیا تھا۔

1971ء میں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ کا اسکرپٹ حزیں صاحب سے لکھوایا ۔ شہری اور دیہی زندگی کے گرد گھومنے والی اس کہانی کو عوام نے بے حد پسند کیا اور اس فلم نے شان دار کام یابی حاصل کی۔1972ء میں پرویز پروڈکشنر کی نغماتی اصطلاحی فلم ’’خان چاچا‘‘ کی کہانی نے انہیں پلاٹینم جوبلی رائٹر بنا دیا۔ یہ پہلی پنجابی فلم تھی، جو 75ہفتوں سے زیادہ چلی۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حزیں قادری کے پاس تین مختلف قلم تھے۔

سلور جوبلی، گولڈ جوبلی اور پلاٹینم جوبلی، قلم کے نام دیئے گئے، جو فلم ساز ان کے پاس کہانی لکھوانے آتا، تو وہ ان کی فرمائش کے مطابق اپنا قلم اور معاوضہ طے کرتے۔ بہ طور مصنف کے علاوہ انہوں نے لاتعداد پنجابی فلموں کے مکالمے اورگیت بھی لکھے۔ خاص طور پر ان کے لکھے ہوئے گیت، شاعری اور معیار کا حسین مرکب تھے۔ جس کی وجہ وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے لکھے بعض گانوں میں درد کی ایک عجیب کیفیت ملتی ہے، جوسننے والوں کو ہجر و فراق کی کیفیات سے دوچار کرتی ہے۔

فلم پاٹے خان میں ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا بے حد مقبول ہوا ، جذبے کی شدت، احساس کی گہرائی اور نغمگی کی صداقت کے طور پر ملنگی کا شہر ۂ آفاق یہ گیت اپنی مثال آپ تھا،’’ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘‘بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ شباب کیرانوی کی گولڈن جوبلی فلم ’’مہتاب‘‘ کا مشہور زمانہ گیت ؎ گول گپے والا آیا گول گپے لایا حزیں قادری نے لکھا تھا، جسے احمد رشدی نے گایا تھا، آج تک سینکڑوں گول گپے بیچنے والے اس گانے کے ذریعے اپنی روزی کما رہے ہیں۔

1962ء میں لکھا ہوا عوامی گانا آج بھی پہلے کی طرح مقبول ہے۔ حزیں قادری کے مقبول گانوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جو اس مختصر مضمون میں نہیں سموئی جا سکتی ۔ پنجابی فلموں کی مقبول دھمالیں بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان میں فلم’’ عشق نہ پُچھے ذات‘‘کی مشہور دھمال ؎ پاک پتن تے آن کھلوتی‘‘۔ یہ دھمال فلم میں سنگیتا سانپاں والی جو اس دورکی ایک ڈانسر تھی، اس پر فلمائی گئی تھی۔ حزیں قادری کی چند اور مقبول دھمالوں میں ’’شہباز کرے پرواز‘‘بھی شامل ہیں۔

بے شمار مقبول گیتوں میں سے چند گیتوں کا ذکر کرتے ہیں ؎ تھوڑا تھوڑا چن ویکھا، جیو ڈھولا، چھلا میرا کِن نے گھڑیا، چھداچلی بابلا، تیریاں میں گلیاں، عاشقاں نوں سوہنا مکھڑا ، تینوں سامنے بٹھا کے شرماواں، سیونی میرے دل دا جانی، بائوجی میں اِک عرض کراں، کہندے نے نیناں تیرے کول ، اوچن میرے مکھناں،چھلا دے جا نشانی تیری مہربانی، وگدی ندی دا پانی، میں پاسے دی سونے ورگی، ست بسم اللہ آیاں نوں، دنیا مطلب دی ہو یار، میں الہڑ مٹیار دی ماہیا، دوریاں وے دوریاں، ماں کملی میری جھلی ماں، سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آگیا، جنا تیری مرضی نچاں، دھیاں تے دھن پرایا، ادھی راتوں ڈھل گئی رات، حزیں قادری کے لکھے ہوئے بے شمار گیتوں میں چند منتخب گانوں کے بوں لکھے ہیں۔ ان کے تمام گانے شاعری کے اعتبار سے بہت اعلیٰ معیار کے تھے، کئی فلموں میں انہوں نے مکمل گانے بھی لکھے ۔

1988ء تک وہ فلمی صنعت سے وابستہ رہے۔ یہ وہ دور تھا، جب حزیں قادری کا سورج غروب ہو چکا تھا اور فلمی دنیا کے لوگ چڑھتے سورج کے پیچھے لگے ہوئے تھے،وہی حزیں قادری جنہیں اسکرپٹ لکھنے کے لیے فلم ساز کئی کئی ہفتے پہلے بُک کرلیا کرتے تھے۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی میں مہنگے ترین ہوٹلز میں ان کے لیے کمرے آل ٹائم بُک رہتے تھے ، جہاں وہ جاکراسکرپٹ لکھا کرتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلموں کی تعداد291ہے، جن میں %70 فلمیں کام یاب رہیں۔

اس قدر مصروف اور اپنے وقت کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اس مصنف کو زندگی کے آخری دنوں میں فلم سازوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ رائل پارک جہاں کبھی ان کی آمد کے فلم ساز منتظر رہتے تھے، آخری ایام میں ان کے آنے پرآنکھیں پھیر لیا کرتے تھے۔ اس سلوک سے وہ کافی دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ فالج نے انہیں مکمل گھر کے اندر بند کردیا تھا، پنجابی سینما کو کام یابی کے راستے پرگامزن کرنے والا یہ مصنف اور نغمہ نگار 3؍مارچ 1991ء کو دنیا سے چلا گیا۔

بہ طور مصنف اور نغمہ نگار کے ساتھ انہوں نے چند فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے وہ مزاحیہ اداکاری کی طرف راغب تھے۔ ظروف کے نام سے فلم جمالو میں ایک ثانوی کردارادا کیا۔ پنجابی سینما میں ان کا جو مقام بہ طور مصنف، مکالمہ نویس اور نغمہ نگار کے تھا، شاید اس مقام تک دوسرا کوئی نہ پہنچ سکا۔