لانگ مارچ: عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا

November 03, 2022

سابق وزیر اعظم عمران خان کے لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کا انجام کیا ہوگا اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ملکی سیا ست کا محور اس وقت یہی لانگ مارچ ہے۔ہر جانب اسی کا تذکرہ ہے۔ سوال سب کے ذہن میںایک ہی ہے کہ کیا عمران خان لانگ مار چ کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا نہیں ؟؟ ان کا بنیادی اور بظاہر تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک میںفوری الیکشن کرائے جائیں لیکن پس پردہ ان کا مقصد اس ماہ کی اہم تقرری کیلئے دبائو ڈالنا بھی ہے۔ عمران خان بیشتر فیصلے جذبات کی رو میں بہہ کر اور ضد و انا کی اسیری میںکرتے ہیں اور اسی وجہ سے اپنے لئے خود ہی مشکلات بھی پید اکرلیتے ہیں لیکن چونکہ کھلاڑی ہیں اس لئے گھبراتے بالکل نہیں ہیں اور نتائج کی پروا ہ کئے بغیر میدان میں ڈٹجاتے ہیں۔

سو اب بھی عمران خان نے اپنے سیا سی کیر یئر کا سب سے بڑا جو ا کھیلا ہے۔باد ی النظر میں اس بار ان کی کا میابی کے امکانات کم اور شکست کے امکانات زیادہ ہیں۔ انہیں25مئی کے اسلام آ باد دھرنے میں بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی جس سے ان کے ورکرز کا مورال بھی گراتھا ۔اب پا نچ ماہ کے بعد انہوں نے دوبارہ یہ رسک لیا ہے۔ سیاسی تاریخگواہ ہے کہ حکومتوں کے خلاف وہی تحریکیں کا میاب ہوئیں جن کو اسٹیبلشمنٹکی سپورٹ حاصل تھی بلکہ یہ تحریکیں چلوائی ہی تب جاتی رہیں جب حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ میں لڑائی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جاتی تھی۔ اس بار صورتحال بالکل الٹ ہے کیونکہ عمران خان کا بیانیہ ہی انٹی اسٹیبلشمنٹہے اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹایک پیچ پر ہیں۔ عمران خان ماضی میں اسٹیبلشمنٹکا مہرہ رہے ہیں ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کو سپورٹکیا۔

مسلم لیگ ن کے خلاف2014 میں اسٹیبلشمنٹکے ایماء پر دھرنا دیا۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان کو کا میاب کرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے پری پول انجینئرنگ بھی کی اور بعد ازاں جتنا سپورٹ عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے کیا کبھی کسی کو سہولت میسر نہیں آئی۔اپنی افتاد طبع کی وجہ سے ان کے تعلقات بالآخر اسٹییبلشمنٹسے بگڑگئے ۔انہیںحکومت سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ اسٹیبلشمنٹکواب جس طرحوہ للکار رہے ہیں اور جس طرحسوشل میڈیا پر ان کی پارٹی نے انٹی اسٹیبلشمنٹمنظم مہم چلائی ہے اس کی ملکی سیا سی تاریخمیںکوئی مثال نہیں ملتی۔

ماضی میں نواز شریف سمیت کئی سیا ستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ پر انفرادی تنقید کی مگر ریڈ لائن کراس نہیں کی۔ عمران خان نے جس طرح استعاروں کی مدد سےجانور ‘ ہینڈلرز‘ نیوٹرل‘ میر جعفر اور میر صا دق جیسے القابات سے نوازاوہ بہر حال ایک انتہائی قدم ہے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیںکیا بلکہ پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کے ذ ریعے انٹی اسٹیبلشمنٹبیانیہ بنایا جو گلی گلی پھیل گیا ہے جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ یہ بات تو تسلیم کرنی پڑے گی کہ عمران خان کے پاس سوشل میڈیا کی جوٹیم ہے وہ سب پارٹیوں سے موثر اور منظم ہے۔

اس کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ انہوں نے امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بھی ڈپلومیٹک سائفر کے ذ ریعے کامیابی سےبنایا مگر یہ بیانیہ ان کی آڈیو لیکس آنے اور ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پر یس کانفرنس سے دم توڑگیا۔اب انہوں نے ارشد شریف بیانیہ بنا یا ہے جس کا ہدف اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن اس نے ان کی اسٹیبلشمنٹسے لڑائی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچادی ہے۔

شہباز گل اور اعظم سواتی کیس میں بھی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹکو ہدف بنایا۔ جس سے اب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی اوپن ہوگئی ہے۔ دونوں آمنے سامنے آگئے ہیں اور حکومت پیچھے رہ گئی ہے بلکہ حکمران اتحاد بغلیں بجا ر ہا ہے کہ عمران خان کا پالا بڑے پہلوان سے پڑا ہے جو ا ن کے تمام کس بل نکال دے گا۔ عمران خان کو زعم یہ ہے کہ اب وہ مقبول عوامی لیڈر بن چکے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مسلہ ہی یہ ہے کہ ان میں تکبر اور انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ بلا کے ضدی اور اڑیل ہیں۔ اب بھی انہوں نے سینگ اڑالیا ہے لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی صفوں میں بہت سے لوگ ہیں جو پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں اور انہیںجب دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کیلئے کہا جا ئے گا تو وہ عمران خان کو چھوڑ جائیں گے۔

عمران خان دراصل سیا سی اور جمہوری مزاج ہی نہیں رکھتے۔وہ ذہنی طور پر ایک ڈکٹیٹر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد پونے چار سال اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی نہ صرف کوشش نہیں کی بلکہ انہیں بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا۔ یہی حرکت انہوں نے میڈیا کے ساتھ بھی کی۔ ان کی برداشت کا عالم یہ ہے کہ جب آئینی طریقے سے 10اپریل کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو انہوں نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اپنے ڈپٹی اسپیکر اور صدر کے ذ ریعے اسمبلی کی تحلیل کا انتہائی قدم بھی اٹھایا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ کا جو مزہ آیا ہے اب وہ اپوزیشن بنچوں پر ایک دن بھی بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

جب وہ وزیر اعظم تھے تو اپو زیشن کے مطالبہ پران کا موقف تھا کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور اسمبلی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے گی۔تضاد یہ ہے کہ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ملکی مسائل کا واحد حل فوری الیکشن کا انعقاد ہے۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور اسمبلی آئینی مدت پوری کرےگی۔عمران خان در پردہ مذاکرات کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت فوری یا کم از کم اپریل میںالیکشن کیلئے مان جا ئے۔

موجودہ حکو مت ہر گز جلد الیکشن کا مطالبہ نہیںمانے گی کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے حکومت غیر مقبول ہوچکی ہے۔ ضمنی الیکشن کے نتائج سے واضح ہے کہ فوری الیکشن کا نتیجہ عمران خان کے حق میںجا ئے گا۔ عمران خان کی کا میابی کے راستے بند کرنا اب صرف حکومت کی خواہش نہیںبلکہ یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹکی مشترکہ خواہش بن گئی ہے۔ عمران خان اب اپنے سیاسی کیریئر کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر وہ بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرسکے تو ان کی سیا ست کا انٹی کلائمیکس شروع ہو جا ئےگا۔انہوں نے پہلے چار نومبر کو اسلام آ باد میںپہنچنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب 10نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ کی پابندی کی وجہ سے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم پشاور موڑ پر سری نگر ہائی وے پر دھرنا دیں گے لیکن یہ محض چال ہے۔ اگر وہ عوام کا سمندر نکالنے میںکا میاب ہوگئے تو ان کا رخ ریڈ زون ہو گا اور اگر معمول کی تعداد ہوئی تو وہ تقریر کرکے بنی گالہ چلے جا ئیں گے۔ توشہ خانہ کیس میں نااہلی نے ان کی پار لیمانی سیا ست کا دروازہ فی الحال بند کردیا ہے۔ان کے صادق اور امین کے تشخص کو بھی دھچکہ لگا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ایف آئی اے تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ ارشد شریف کیس میں بھی ان کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

اپنی پارٹی کو ٹوٹپھوٹ سے بچانا بھی ان کیلئے ایک چیلنج ہے۔ عمران خان ایک مشکل سیا سی امتحان سے گز ر رہے ہیں۔ آنے والا وقت یہ طے کرے گا کہ وہ ایک ناکام سیا ستدان ہیں یا تاریخ کا دھارا بدلنے والے ہیرو۔ یہ سیا سی جواعمران خان کو ہیرو بھی بنا سکتا ہے اور زیرو بھی۔وہ کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں۔ ان کا چھکا بھی لگ سکتا ہے اور وہ کیچ آئوٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اب یا کبھی نہیں میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اب کشتیاں جلا چکا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی فائر فائٹنگ کر رہے ہیں دیکھیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیںکیونکہ عمران خان اب اسٹیبلشمنٹکیلئے قابل بھروسہ نہیں رہے۔