زمینوں پر قبضے سندھ میں کوئی نئی بات نہیں ،خاص طور پر دریا کے ساتھ ذرخیز زمین جس کی کاشت میں نہ تو کھاد کی اور نہ ہی زرعی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے اور فی ایکٹر پیداوار عام زمینوں سے دُگنی اترتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اگر ریاستی اداروں کی طاقت بھی شامل حال ہو تو پھر کیا کہنے، کچھ اسی طرح کی صورت حال شہر قاضی احمد کے قریب دریائے سندھ کے ساتھ گاؤں میں چھوٹے کاشت کاروں کے ساتھ بنی جب ریاستی طاقت کے بل پر پر مبینہ طور پر ایک بااثر شخصیت کے اشارے اور پشت پناہی پر مبینہ طور پر آٹھ ایکڑ زرعی زمین پر قبضہ کرکے کاشت کاروں کے گھر خالی کراکر ان کے لیے ان کے گھر اور زمینیں نو گو ایریا بنادی گئیں۔
اس سلسلے میں متاثرہ افراد نے قومی شاہراہ پر نواب ولی محمد اسٹاپ پر بیالیس روز تک احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔ تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور جب بقول متاثرین ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو متاثرین نے قومی شاہراہ کے دونوں ٹریک پر دھرنا دے کر کراچی سے پنجاب بلوچستان خیبر پختونخواہ آنے جانے والا ٹریفک بلاک کردیا ۔
اس دھرنے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خواتین اور بچوں سمیت نہ صرف متاثرین، بلکہ سندھ حکومت کی مخالف پارٹیوں جن میں تحریک انصاف کے عنایت رند ،مسلم لیگ فنگشنل کے سید زاہد شاہ،مسلم لیگ ن کی نازو دھاریجو ،جمعیت علماء اسلام ف کے عبدالقیوم چنا،سندھ ترقی پسند پارٹی کے نثار کیریو ،سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سید زین شاہ علاوہ قوم پرست جماعتوں کے نیاز کالانی ،روشن برڑو ۔سرفراز میمن ،سمیت سینکڑوں کارکنوں اور علاقہ مکینوں نے بھرپور شرکت کی۔
دھرنا شروع کرنے ساتھ ہی قومی شاہراہ کے دونوں ٹریک مظاہرین نے شامیانے لگا کر بند کردیے اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی نکلنا تھا کہ دونوں اطرف کی ٹریفک رک جانے سے ہزاروں گاڑیاں جن میں مرغی کے گوشت ،فروٹ ،سبزیوں سمیت دیگر ایسا سامان جن کی مالیت لاکھوں روپے بتائی جاتی ہے، چھتیس گھنٹے کے دھرنے اور اس کے بعد بھی گھنٹوں بعد منزل پر پہنچا، تو وہ مال استمال کے بہ جائے پھینکنے جیسا بن گیا اور اس ایک دھرنے نے تاجروں کو عرش سے فرش پر بٹھا دیا، جب کہ دوسری جانب مبینہ طور پر گھروں اور زمینوں پر قبضہ کرکے اربوں روپیہ مالیت کی جائیداد پریس لی گئی۔
تاہم یہ سب کچھ کس طرح ہوا، اس سلسلے میں دھرنے کے روح رواں سابق کونسلر خمیسو خان بھنڈ نے بتایا کہ ہم ہاریوں کو سابق صدر ایوب خان اور سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات میں فی ہاری چھ اور بارہ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی، جس پر ان کی تیسری نسل کاشت کررہی اور گھر بناکر رہ رہی ہے۔
خمیسو بھنڈ نے کہا کہ سال 2012 میں بھی اسی طرح کا قبضہ کیا گیا اور کئی سال تک مقدمہ بازی کے بعد معزز ہائی کورٹ سرکٹ بینچ نے کاشت کاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور قبضہ خالی کراکر اصل مالکان کے حوالے کیا اور یُوں کئی سال سکون سے گزرے، لیکن پھر ایک مرتبہ یہی کہانی نئے انداز سے دھنائی گئی اور خمیسو بھنڈ کے بقول مسلح افراد نے ان کی آٹھ سو ایکڑ زرعی زمین جس پر گندم سرسوں گنا پیاز سمیت دیگر فصلیں کاشت ہے، نہ صرف ان پر قبضہ کرکے بلکہ ان کو گھروں سے بے داخل کرکے مسلح افراد بٹھا دیے گئے۔
خمیسو بھنڈ نے بتایا کہ اس زیادتی کے بعد ہم نے بیالیس یُوم تک نواب ولی محمد بس اسٹاپ پر احتجاجی کیمپ لگایا، لیکن کسی نے ہماری داد رسی نہیں کی اور مجبور ہوکر ہم نے تمام جماعتوں کی شراکت سے قومی شاہراہ پر چھتیس گھنٹے دھرنا دیا، اس سلسلے میں دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے رہنما سید زین شاہ نے کہا کہ سندھ کی کرپٹ حکومت نے اب قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر زمینوں پر قبضے کرنے شروع کردیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج آٹھ سو ایکڑ اور گھروں پر قبضہ کا الزام سندھ حکومت کی ایک اعلی شخصیت پر لگا ہے، جب کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی نے اس سلسلے میں متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی، جس کے بعد انہیں انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔
اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دھرنے کے پہلے روز اسسٹنٹ کمشنر قاضی احمد اور ڈی ایس پی مظاہرین کے پاس آئے اور دھرنا ختم کرنے کا کہا، لیکن متاثرین نے جب اپنی زمینوں اور گھروں پر مبینہ قبضہ ختم کرانے کی ڈیمانڈ رکھی، تو انہوں نے کہا کہ آپ ہنری زمینوں اور گھروں سے قبضہ ختم کرادیں، ہم دھرنا ختم کرکے اپنی زمینوں اور گھروں کو واپس ہوجائیں گے اور خمیسو بھنڈ کے بقول دونوں افسران واپس چلے گئے۔ تاہم دھرنے کے دوسرے روز میڈیا کوریج اور قومی شاہراہ پر پھنسی گاڑیوں کے مسافروں اور ڈرائیوروں کا احتجاج رنگ لایا اور انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں، اس سلسلے میں لاہور سے چکن کا گوشت لانے والے ٹریلر ڈرائیور نے بتایا کہ چھتیس گھنٹے کے دھرنے سے گوشت قابل استمال نہیں رہا اور مالکان کو لاکھوں کا نقصان ہوا۔
جب کہ ایک ڈرائیور کا کہنا تھا کہ اس کے پاس فروٹ تو کسی کے پاس سبزی تھی، جو گل سڑ گئی ہے، جب کہ مسافروں کا کہنا تھا کہ کوئی اپنے پیارے کے جنازہ میں جارہا تھا، لیکن روڈ بلاک ہونے سے وہ چہرہ دیکھنے اور تدفین میں شرکت سے محروم رہا، جبکہ کوئی اپنے عزیز یا دوست کی بارات میں شرکت کے لیے جارہا تھا، لیکن وہ اس کی حسرت لے کر بس میں بیٹھا رہا، جب کہ ستم بالائے ستم یہ بھی ہوا کہ لنک روڈ سے نکلنے کی خواہش میں راستے معلوم نہ ہونے سے گاڑیاں سنسان علاقوں میں پھنس گئیں اور کئی جگہ بسوں کے مسافروں سے لوٹ مار کی خبریں بھی ملیں۔ تاہم اس دھرنے کا اختتام اسسٹنٹ کمشنر قاضی احمد آفس میں ڈپٹی کمشنر عامر حسین پہنور اور ایس ایس پی امیر سعود مگسی کی موجودگی میں گواہ نیاز کالانی اور روشن برڑو کے سامنے پچاس روپیہ کے اسٹامپ پیپر پر معاہدہ تحریر کیا گیا کہ مبینہ طور پر قبضہ کی تیرہ سو نوے ایکٹر زمین کا فیصلہ میر منور پہنور دس یوم میں کریں گے۔
جب کہ غلام حیدر بھنڈ اور خمیسو خان بھنڈ کے گھر خالی کراکر ان کے حوالے کیے جائیں گے اور اس معاہدے کے دوسرے روز ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ انہوں نے گھر خالی کراکر غلام حیدر اور خمیسو بھنڈ کے حوالے کردیے ہیں اور امن وامان کی صورت حال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے پولیس پکٹ بھی قائم کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمین کی ملکیت کا فیصلہ دس یوم میں کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد میر منظور پہنور کریں گے، جس کو محسن ذرداری اور دوسرے فریق خمیسو بھنڈ اور غلام حیدر بھنڈ کی پارٹیاں تسلیم کرنے کی پابند ہوں گی۔ تاہم اس سارے قضیہ میں ایک سوال یہ اہم ہے کہ سیاسی بنیاد پر یا زمین جائداد پر قبضے اور قتل اغواء کی وارداتوں کے متاثرین کو کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔