اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بریسٹ کینسر کے بڑھتے کیسز سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں ریمارکس دئیے کہ خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ سیکٹر میں تو کوئی کام ہو ہی نہیں رہا، حکومت کے اربوں روپے جا کہاں رہے ہیں؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ صحت کارڈز کا کوئی طریقہ کار تو ہو، کس کس کو صحت کارڈ دینگے؟۔ منگل کوسپریم کورٹ میں بریسٹ کینسر کے بڑھتے کیسز سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور تمام صوبائی سیکرٹریز صحت کو بریسٹ کینسر سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری صحت بلوچستان کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے بریسٹ کینسر کی مشینری اور علاج کیلئے 3 ارب روپے مختص کیے ہیں، منصوبے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ صرف پی سی ون ہی بناتے رہتے ہیں عملدرآمد کوئی نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اصل مسئلہ انسانی وسائل کا ہے، کروڑوں کی مشینری لا کر رکھ دی جاتی ہے، استعمال کوئی نہیں جانتا، جب تک اسپتالوں کا سیٹ اپ بنائیں گے تب تک لوگ مرتے رہیں گے، صوبہ بلوچستان میں ایک بھی انکولوجسٹ نہیں، بلوچستان کا ہیلتھ بجٹ کہاں جاتا ہے؟ وہاں آج تک کوئی اوپن ہارٹ سرجری نہیں ہوئی۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے شہریوں کی صحت سہولت کیلئے صحت کارڈ کے اجرا کا کام شروع کیا ہے، صحت کارڈ کے تحت رجسٹر ہونے والے ہر شہری کو 10 لاکھ روپے تک علاج کرانے کی سہولت دی گئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ صحت کارڈز کا کوئی طریقہ کار تو ہو، کس کس کو صحت کارڈ دیں گے؟۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ نے پانچ چھ ارب مختص کر دئیے ہوں گے تا کہ لوگ اس میں سے پیسا کھاتے رہیں۔
خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ سیکٹر میں تو کوئی کام ہو ہی نہیں رہا، کے پی کے سرکاری اسپتالوں میں نا کوئی ایکسرے مشین کام کرتی ہے نا آکسیجن کا نظام ہے، کے پی حکومت کے اربوں روپے جا کہاں رہے ہیں؟
کے پی کے اسپتالوں میں ٹاپ سے لے کر نیچے تک لوگ سفارش پر بھرتی کیے گئے ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔