• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کب ختم ہوں گے؟

پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کو اقتدارسنبھالے آج پانچ ماہ پورے ہوگئے ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بحیثیت صدر ریاست اور سردار عبدالقیوم خان نیازی بحیثیت وزیراعظم آزاد کشمیر اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ آزاد کشمیرمیں نومبر1991ء میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے ۔اس کے بعد نومبر1996ء میں جب آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان صدر ریاست اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری وزیراعظم آزاد کشمیر تھے۔

اس دوران بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے امیدواران نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے انتخابات کی تاریخ مقررہوگئی تھی۔مگرعین وقت پر یعنی9 نومبر 1996ء کواس وقت کی حکومت نے اچانک بلدیاتی انتخابات ملتوی کرلیے تھے اوریہ اعلان کیاتھاکہ اندرچھ ماہ بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے مگروہ چھ ماہ کیااس کے بعدکئی سال گزرگرے مسلم کانفرنس پیپلزپارٹی اور پھر مسلم لیگ ن اقتدار میں رہی مگرکسی نے بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کی زحمت نہ کی اورمختلف بہانے بنا کر انتخابات کی تاریخیں دیتے رہے ۔

اب آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کے مطابق حکومت آزادکشمیرکوہدایت کی گئی ہے کہ اگست 2022ء سے قبل بہرصورت آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔قبل ازیں 1979ء ،1983ء، 1987اور1991ء میں جو بلدیاتی انتخابات کروائے گئے تھے ان کے لئے علیحدہ سے بلدیاتی الیکشن کمیشن کاادارہ موجود تھا اب حکومت نے چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر کو ہی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ الیکشن کمشنرنے نئی حلقہ بندیوں کاشیڈول جاری کر دیا ہے۔ اس کے بعدحلقہ بندیاں مکمل ہونے پرووٹرزکی فہرستیں مرتب کی جائیں گی اوریہ بات یقینی ہوچلی ہے کہ موجودہ حکومت ہرحال میں بلدیاتی انتخابات کرواناچاہتی ہے۔ 

وزیراعظم آزاد کشمیر اس حوالے سے پرعزم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جماعتی بنیادوں پر لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990ء کے تحت انتخابات کروائے جائیں۔کہاجارہاہے کہ حکومت کے اندر موجود ذمہ داران کے درمیان خاصی حدتک اختلافات ہیں۔ جس باعث اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس بھی نہیں ہورہا ہے اورنہ ہی اس وقت تک کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں۔ آزادکشمیرکی اگر سیاسی تاریخ کاجائزہ لیاجائے تویہ بات عیاں ہے کہ ماضی میں پارلیمانی روایات اورطریقہ کارسے ہٹ کرجس کسی کوبھی وزیراعظم بنایا گیا وہ نوماہ سے زیادہ عرصہ نہیں چلا جس طرح جون 1990ء میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر نے پارٹی صدرغازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت اورقیادت میں انتخاب لڑاکامیابی حاصل کی مگر جب قائدایوان کے انتخاب کاوقت آیاتوپارلیمانی طریقہ کارسے ہٹ کرپارٹی صدرکے بجائے اس وقت راجہ ممتازحسین راٹھورکووزیراعظم نامزد کیا گیا تھا جوکہ بمشکل نوماہ چل سکے تھے اور ایسے حالات پیداہ وئے کہ انہوں نے خودہی اسمبلی توڑدی تھی۔

 2006ء کے انتخابات کے بعدایک مرتبہ جب سردارعتیق احمدخان جو وزیراعظم تھے کے خلاف عدم اعتماد کروا کر جن صاحب کووزیراعظم بنایا گیا تھا وہ کسی بھی پارٹی کے قائم نہ تھے۔ مگر انہیں وزیراعظم بنایا گیا یعنی سردار محمد یعقوب خان وہ بھی نوماہ سے زیادہ وقت نہ لگاسکے۔ اس کے بعد پھر راجہ فاروق حیدر خان کووزیراعظم بنایاگیاتھاوہ بھی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ نہ تھے انہوں نے بھی بڑی مشکل سے نوماہ کاعرصہ گزارا۔

اسی طرح موجودہ حکومت کے جووزیراعظم ہیں وہ بھی پارلیمانی روایات سے ہٹ کربنائے گئے ہیں۔ جس باعث پارٹی کے اندران کی مخالفت روزبروزبڑھ رہی ہے۔ آزادکشمیرکی وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لئے نامزدگی کے وقت وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی جوتحریک انصاف پاکستان کے سربراہ ہیں نے اس وقت کے پارٹی صدربیرسٹرسلطان محمدچوہدری کو نظر انداز کر کے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی کونامزدکیا اوربیرسٹرکوپارٹی صدارت سے ہٹا کر صدر ریاست بنایا گیا۔

اسی طرح اس وقت تحریک انصاف آزادکشمیر کے جن صاحب کو صدر بنایا گیا ہے وہ بلحاظ عہدہ سینئر وزیر بھی ہیں ان کوتحریک انصاف میں آئے ہوئے چندماہ ہوئے تھے کہ ان کو اپنے آبائی حلقہ سے ہٹ کر دوسرے حلقے سے نہ صرف ممبرمنتخب کروایا گیا بلکہ انہیں وزیراعظم آزادکشمیرکی صف میں بھی شامل کیاگیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوسکے انہوں نے بحیثیت اور پارٹی پربھی قبضہ کرلیا۔

آزادکشمیرکی حکومت نے صوابدیدید ی عہدوں پرتعیناتیاں شروع کردی ہیں۔ترقیاتی اداروں کے چیئرمین بنادیئے گئے ہیں جبکہ دیگردوتین اہم آسامیوں پران لوگوں کوتعینات کیا گیا ہے ،ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض نے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے نامزدامیدواران کے خلاف حصہ لیا۔ خود بھی ہارے اور تحریک انصاف کے امیدواران کوبھی ہروایا۔اس کے باوجودتحریک انصاف کے لئے سال ہاسال کام کرنے کے لئے بنیادی نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کیا جارہا ہے جس باعث کارکنان میں کافی تحفظات پائے جارہے ہیں۔

صدر اور وزیراعظم کے درمیان اندرونی اختلافات سامنے نہیں آ پا رہے اور اندر ہی اندر کچھڑی پک رہی ہے۔ کیا دونوں کے اختلافات کبھی ختم ہو پائیں گے؟۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید