انٹرنیٹ کمپیوٹر کا ایسا جال ہے، جس نے ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔وہ نوجوان جو اس کا مثبت استعمال کر رہے ہیں وہ بڑے مالی اور سماجی فوائد حاصل کر رہے ہیں ۔ دُنیا کے تمام ممالک ایک دُوسرے کے قریب آگئے ہیں اس کی بدولت دُور دراز ملک میں بیٹھے شخص سے رابطہ یا بات چیت ہو جاتی ہے ۔ انٹرنیٹ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ڈاک کے ذریعے خط و کتابت کی اہمیت پر اثر ڈالا، وہیں نئی نسل کے مطالعے کی عادت کو بھی بدل دیا، پہلے جہاں کتابیں ذوق شوق سے پڑھی جاتی تھیں، اب ان کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی۔
’’ سوشل میڈیا‘‘، انٹرنیٹ سے جُڑا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد کے ساتھ اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے، خیالات کا تبادلہ کرنے، پیغام کی ترسیل کرنے کےساتھ ہی دیگر کئی چیزوں جیسے گرافکس، ویڈیوز، آڈیوز، پوسٹر وغیرہ کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔سوشل میڈیا کے سحر نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اس کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ اس کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن جہاں اس کے بہت سے فوائد ہیں، وہیں اس کے نقصانات سے بھی نظر یں نہیں چرائی جاسکتیں۔ سوشل میڈیا کا بہاؤ بہت وسیع اور لامحدود ہے۔ معاشرے میں ہر ایک کو سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل رہے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی کو ضرورت کے مطابق مثبت انداز میں اس کا استعمال کیا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے میں نعمت سے کم نہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ متحرک ہوجاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو کہ کوئی نشہ (جیساکہ کوکین وغیرہ کا استعمال) کرتے ہوئے متحرک ہوتا ہے، لہذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے، جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس کو استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور میں یہ نوجوانوں کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سوشل میڈیا نوجوان نسل کے دِل و دماغ پر جنون کی حد تک حاوی ہوگیا ہے۔ اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کر تے ہوئے، اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں لوگ اپنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کی سوشل میڈیا سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سارے دن کی تھکن اور مصروفیات کے باوجود اس کا استعمال کرتے ہیں۔ کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شئیرز کی گنتی میں الجھ کر اپنے آپ کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ معاشرے سےکٹے جارہے ہیں۔ اپنوں کے درمیان ہنستے ہوئے جینے کا نام زندگی ہے۔ یاد رکھیں، کوئی بھی چیز بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا غلط استعمال اسے برا بنا دیتا ہے۔
اولاد کے پاس ماں، باپ کے لیے وقت نہیں ہے اور ماں باپ کے پاس بچّوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ فاصلے سمٹ رہے ہیں، محبتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ نوجوان صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، نیند کی کمی میں اضافہ ہو رہا ہے جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کو کم کر رہا ہے، اپنی تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں، انہیں علم ہی نہیں ہے کہ وہ کس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔
اُنہیں احساس ہی نہیں کہ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ بھی بڑی آسانی سے دوستی کی آڑ میں ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ بس وہ تو مختلف قسم قسم کے ویڈیوز دیکھ کر طرح طرح کے کارنامے انجام دے رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر کچھ نوجوانوں کی ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دُوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ کسی کے بخیے اُدھیڑنے ہوں، کسی کی زندگی میں زہر گھولنا ہو ، کسی کی عزت کی دھجیاں اُڑانی ہوں تو وہ سو شل میڈیا کے ذریعے بلا خوف وخطرکے یہ کام کر گزرتے ہیں۔ معلومات دُرست ہوں یا غلط، کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں، بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئر کر دیتے ہیں۔
سائنس کی ترقّی انسانوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے ہو تی ہے، مگر بدقسمتی سے منفی سوچ کی وجہ سے منفی پہلوئوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے لیکن اس کے مثبت پہلوؤں سے انحراف بھی نہیں کیا جاسکتا۔ درس و تدریس سے منسلک افراد کی بہت سی مشکلات انٹرنیٹ کی وجہ سے حل ہوگئیں ۔نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دن رات آئی ٹی کے شعبہ میں سرگرم عمل ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
کچھ نوجوانوں نے ایسی تعلیمی ویب سائٹس بنائیں جن پر طلباء کے لیے مختلف تعلیمی نوٹس، سابقہ حل شدہ پرچے، تعلیمی اعلانات وغیرہ موجود ہوتے ہیں، اس طرح نوجوانوں کو جوہر دکھانے کے مواقع مل رہے ہیں۔ نئے لکھنے والے نوجوان، ادیب، مقرر،شعراء، آرٹ اور مصوّروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے باعث اردو زبان کے فروغ میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن ان کی تعداد انگریزی بلاگز کے مقا بلے میں بہت کم ہے۔
ٹیکنالوجی کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ اردو بلاگنگ سے وابستہ توقعات بھی کچھ بدل گئی ہیں۔ شروع میں کسی اردو بلاگ کا آغاز ہونا اور فعال رہنا ہی غنیمت جانا جاتا تھا لیکن اب اردو بلاگرز میں فکر انگیز اور معلوماتی تحریریں پیش کی جاتی ہیں، اس اعتبار سے مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے اور کئی اچھے ادبی اور معلوماتی اردو بلاگز لکھے جانے لگے ہیں لیکن دوسری طرف منفی اثرات بھی مرتب ہو رہےہیں ، سوشل میڈیا پر اُردو اور انگریزی تحریروں میں ہجّوں اور گرامر کی غلطیاں بے شمار ہوتی ہیں۔ رومن اردو کے استعمال نے اُردو زبان اور لکھائی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے استعمال سے طلبہ نہ اُردو صحیح سے لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ انگریزی۔
نسلِ نو سوچ کے زاویئے بدلے گی تو بہت کچھ بدل جا ئے گا۔والدین بھی بچوں کی سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں تا کہ وہ معاشرے کے بگاڑ کا سبب نہ بنیں۔ اساتذہ کرام، علماء اور سول سوسائٹی سوشل میڈیا کی نوجوانوں میں آگاہی اور اصلاح کے لیے باقاعدہ مہم چلائیں۔ نوجوانوں میں شعور اُجاگر کریں ۔
نوجوانوں کو خود بھی یہ سوچنا ہوگا کہ انہیں کس طرف جانا چا ہیے۔ اس پھیلتی برائی اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا سدباب کرنا ہوگا ، اگر اس کا صحیح اور دانشمندی سے استعمال نہیں کیا گیا تو پورے معاشرے کا تانا بانا بکھر سکتا ہے ۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی چیز کا استعمال اعتدال سے کیا جائے تب ہی وہ مفید ہوتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کا تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔