• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر…احمد جواد

‎‏قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی

‎مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

‎برفباری سے سڑک پر ہونے والے حادثات کا مری میں پیش آنے والے واقعے سے کوئی موازنہ نہیں۔کچھ لوگ مختلف ممالک کی مثالیں دیکر مری کے سانحے کا جواز پیش کر رہے ہیں۔میرے چار دہائیوں سے ہیرو عمران خان نے لوگوں کی غیر ذمہ داری کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بہت سے دانشوروں نے بھی مرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔نیرو بانسری بجا رہا تھا اور روم جل رہا تھا۔ ایک بادشاہ کی کہانی جو آج پھر سے زندہ ہو گئی۔کچھ سوال کر رہا ہوں ریاست مدینہ کی روایت کے مطابق، اُمید ہے کہ حضرت عمر علیہ سلام کی مثال قائم رکھی جائے گی۔‎فوجی دستوں اور پولیس کو 10-20 کلومیٹر پیدل چلنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ شاید 4-5گھنٹے؟ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا کے بہترین موبائل نیٹ ورک کی موجودگی میں سردی سے مرتی ہوئ معصوم جانیں کو بچانے کیلئے اس ٹیکنالوجی سے کیا فائدہ اُٹھایا گیا؟اگر وزیر اعظم، کسی وزیر، جنرل، اعلی عہدے دار کے بچے برف میں پھنسے ہوتے اور وہ SOS کی کال دیتے تو کیا 20گھنٹوں تک مدد نا پہنچتی؟ کیا وزیراعظم رات کو سو سکتے اگر اُن کے اپنے بچے برف میں پھنسے ہوتے؟ وہ گورنر ہاؤس جنہیں گرانے کا وعدہ عمران خان نے کیا وہ بھی اس قیامت کی رات میں لوگوں کو پناہ نا دے سکے۔ مری، اسلام آباد اور راولپنڈی کے اعلی عہدے دار جو حادثے کی جگہ سے دس سے چالیس کلومیٹر پر ٹیلی ویژن پر ایک رات پہلے حالات کی سنگینی کو دیکھ رہے تھے اگر ان کا اپنا محکمہ انھیں صحیح صورت حال سے نہیں بھی آگاہ کر رہا تھا۔ ہر آگ لگنے کی وجہ کسی نہ کسی کی غفلت ہو سکتی ہے لیکن مہذب معاشروں میں بحث آگ لگنے والے شخص کی غلطی پر نہیں ہوتی، بحث یہ ہوتی ہے کہ فائر بریگیڈ بروقت پہنچی یا نہیں۔آیا فائر ٹیم نے موثر انداز میں کام کیا یا نہیں۔ بلڈنگ میں آگ بجھانے کے انتظامات ٹھیک تھے یا نہیں؟ آج استنبول میں ایک میٹرو اسٹیشن پر ڈسٹ بن میں کسی نے جلتا ہوا سگریٹ پھینک دیا اور اس میں تھوڑی سی آگ لگ گئی، چند منٹ میں فائر بریگیڈ پہنچ گیا اور آگ بجھا دی۔ ہمارے ملک میں اگر یہی واقعہ ہوتا تو چھوٹی سی آگ بڑی آگ میں بدل جاتی اور اس ملک کے دانشور اور حکومتی لیڈرشپ سارا الزام لوگوں کی لاپروائی پر ڈال دیتے۔‎سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں ذمہ داری کشتی میں ڈوب جانے والوں پر نہیں ڈالی جاتی۔ مہذب معاشرے اس بات پر بحث نہیں کر تے کہ لوگ تباہ حال کشتی میں سمندر میں کیوں گئے، مہذب معاشرے بحث کرتے ہیں کہ حکام نے غیر محفوظ کشتی کو خراب موسم میں سمندر میں جانے سے کیوں نہیں روکا؟ ریسکیو ٹیم بروقت کیوں نہ پہنچ سکی؟ کشتی کو فٹنس سرٹیفکیٹ کس نے دیا؟‎ریڈ سگنل کی خلاف ورزی پر آج چیکنگ بند کردیں، لوگ رسک لینا شروع کر دیں گے اور خلاف ورزی معمول بن جائے گا۔ریڈ سگنل کی خلاف ورزی پر سزائیں دینا شروع کریں، لوگ قانون کا احترام کرنا شروع کر دیں گے اور مہذب بن جائیں گے۔جب نواز شریف نے موٹر وے جیسا پراجیکٹ شروع کیا اور وہاں بین الاقوامی سٹینڈرڈز متعارف کروائے تو وہی بدتمیز اور بد تہذیب لوگ قانون کا احترام کرنے لگے۔قوموں کو اسی طرح تہذیب یافتہ بنایا جاتا ہے۔ہر حادثے کے بعد بحث یہ نہیں ہونی چاہیےکہ حادثے کے شکار لوگوں کا رویہ کیا تھا، بحث ہمیشہ یہ ہونی چاہیے کہ لوگوں کے رویے کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری کس پر ہے۔ اخلاقی رویے خود سے پیدا نہیں ہوتے، انہیں پیدا کیا جاتا ہے قانون کے ذریعے، لیڈرشپ کے ذریعے، اپنی مثال قائم کرکے۔ کراچی میں اور دوسرے ساحلی علاقوں میں خراب موسم میں کشتیوں کو سمندر میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، عوام کو ساحل پر جانے سے روک دیا جاتا ہے۔قانون آگاہی سے یا اعلانات سے نافذ نہیں ہوتے۔ قانون اپنی طاقت اور اپنی رٹ سے نافذ ہوتے ہیں۔ جب یورپ کے ساحل پر ایک چھوٹی سی بچی کی لاش ملی تو کسی یورپی لیڈر نے الزام اس کے ماں باپ پر نہیں ڈالا بلکہ پورا یورپ اس ایجنڈا پر فوکس ہو گیا کہ شام سے ہجرت کرنیوالوں کی جان کیسے بچائی جائے۔