اسلام آباد(ایجنسیاں،نمائندہ جنگ)قومی اسمبلی میں سانحہ مری پر پیر کو عام بحث ہوئی ‘اس موقع پر وزیراعظم عمران خان ایوان میں موجودنہیں تھے۔
اپوزیشن نے وزیراعظم کو سانحہ مری کا ذمہ دارقرار دیتے ہوئے تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے اورحکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدراورقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا کہناتھاکہ جب حادثہ ہواتو ایک نیرو اسلام آباد میں سویا ہوا تھا اور دوسرا نیرو پنجاب میں انتظامی امور کی آڑ میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی والے جب سے اقتدار میں آئے ہیں متاثرین کو ہی قصوروار بنادیتے ہیں‘پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ نے کہاکہ آج تو پوری کابینہ کو ایوان میں ہوناچاہئے تھا‘وزیراعظم کو پہلے تقریر کرکے اپنی ناکامی تسلیم کرنی چاہئے تھی۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا تھاکہ تیس تیس سال تک اقتدار میں رہنے والوں نے عوام کیلئے کیاکیا‘ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ شہباز شریف عادی شعبدہ باز ہیں۔
انہیں حادثات پر سیاست یا شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں آتا‘ آج کاپابلواسکو بار (کولمبیاکا شہری جو منشیات کا بادشاہ اور دنیاکا امیرترین مجرم تھا)بتا رہا ہے کہ نیرو سو رہا تھا‘یہ مری میں محل بنانے کی بجائے وہاں کام کراتے تو سانحہ نہیں ہوتاجبکہ وزیرتوانائی حماداظہر کاکہنا تھاکہ گزشتہ ادوار میں بھی ایسے واقعات ہوئے مگر کسی نے پوچھا تک نہیں۔
فواد چوہدری کی تقریرکے دوران اپوزیشن ارکا ن نے شدید نعرے بازی کی ‘اسپیکر انہیںخاموش رہنے کی ہدایت کرتے رہے‘اراکین نے سیاحتی مقامات پر سڑکوں پر خصوصی ایمرجنسی لین بنانے، ٹورازم پولیس کے قیام، متبادل سیاحتی مقامات کے فروغ اور ہوٹلوں کے لئے سرٹیفکیشن لازمی قرار دینے سمیت سانحات سے بچنے کے لئے تجاویز دیں۔
بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) منگل کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا۔پیر کو قومی اسمبلی میں سانحہ مری پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے اسپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا کہ تمام ارکان کو چاہیے کہ اس سانحہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے سوگواری کا تاثر جانا چاہیے ورنہ قوم ہم پر ہنسے گی۔
شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مری سانحہ پر وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور گھر جائیں، واقعہ پر کمیٹی نہیں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
23 افراد کی موت کی سوفیصد حکومت ذمہ دارہے‘ ہزاروں لوگ پھنسے رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا‘ بلاول بھٹو زرداری نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں‘اگر اس واقعہ کو فراموش کردیا گیا تو یہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت سے دو گھنٹے کی مسافت پر برف میں محصور لوگوں کی مدد نہیں کی جاسکی۔متاثرہ لوگوں کی مدد کی بجائے انہیں مورد الزام ٹھہرانا درست بات نہیں ہے۔
اپنی تقریرمیں خورشید شاہ نے کہاکہ اگر حکومت بروقت اقدامات کرتی تو ایسا سانحہ نہ ہوتا‘چیف منسٹر پنجاب نے خود تسلیم کیا کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں‘سی ایم نے سیکھنے سیکھنے میں اتنی جانیں لے لیں۔
مزید سیکھنے کے لئے کتنی جانیں چاہئیں ‘حکومت کنٹینر سے ہی نہیں اتری‘وزیراعظم نے جس بدھ کو سوالوں کے جواب دینے کا اعلان کیا تھا وہ بدھ کب آئے گا‘وزیراعظم غلام بنانے کے لئے ضرور آئیں گے جس دن آئی ایم ایف کا مطالبہ پورا کرنا ہوگا۔
چوہدری فواد حسین نے جوابی تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے نیا پاکستان کا وعدہ کیا ہے، نیا پاکستان ہم بنا کر رہیں گے، ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ ہو رہی تھی، بادشاہ سلامت نے فرمایا ٹی وی پر دیکھا فائرنگ ہو رہی ہے، روک دو، ان کی تمام ترقی اپنے گھروں کے اردگرد ہوئی،انہوں نے 30، 30 سال حکومت کی لیکن یہ لیڈر نہیں بن سکے ۔
انہوں نے تیس سال بونے پالے ہیں، یہ بڑے نہیں ہو سکے‘انہوں نے مری اور پنجاب میں وسائل لگائے ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔شہباز شریف کے دور میں ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے 100 بچے ہلاک ہو گئے تھے اور یہ منہ دیکھ رہے تھے۔
اس موقع پرحماد اظہر نے کہا ہے کہ سانحات پر پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے مثبت اور تعمیری بحث ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے سانحات کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔
سانحہ مری کی تحقیقات جاری ہیں،ملوث افراد کو سزا دی جائے گی‘ایسے سانحات ماضی میں بھی ہوئے ہیں۔
لاہور کے کارڈیک ہسپتال میں 100 ہلاکتیں ہوئیں، اسی طرح زچہ و بچہ وارڈ میں آگ لگنے سے کئی بچے جاں بحق ہوئے۔