یہ گزشتہ دسمبر کی ایک دوپہر کا واقعہ ہے ، جب شہید بے نظیر یونیورسٹی کا طالبِ علم محلہ لیاقت آباد، نواب شاہ کا رہائشی انیس سالہ ریحان شیخ گھر سے یہ کہہ کر گھر سے نکلا کہ سانگھڑ سے کچھ دوست آرہے ہیں اور انہیں کچھ چیزیں دلانی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد واپس آتا ہوں یہ کہہ کر ریحان اپنی موٹر سائیکل اپنے والد کی دُکان پر چھوڑ کر چلا گیا ، دوپہر سے شام اور پھر رات بھی ہوگئی، تو گھر والوں کی تشویش اندیشوں میں تبدیل ہوتی گئی، سب پہلے اس کے حلقہ احباب میں تلاش شروع کی گئی، ٹیلی فونک رابطے اور بالمشافہ ملاقاتوں سے ریحان کا کوئی سراغ نہ ملا، تو تلاش کا دائرہ بڑھا دیا گیا، علاقہ کے ائرپورٹ تھانہ میں این سی داخل کرائی گئی اور سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر شئیر کی گئیں۔
اہل خانہ دور نزدیک کے رشتے داروں اور دوست احباب پوسٹیں لگا کر اپنا حق ادا کیا، جب کہ شہید بے نظیر یونی ورسٹی کے طالب علمی کے دور کے ساتھیوں سے معلومات، جب کہ سانگھڑ میں جہان وہ بے نظیر یونی ورسٹی کے کیمپس میں زیر تعلیم رہے، ان کے کلاس فیلوز جن میں طالبات بھی شامل تھیں، انہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی ریحان کی تلاش کے دوران رابطے میں رکھا گیا، لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملنا تھا، سو نہیں ملا اور یوں اس کے ماں باپ بہن بھائیوں پر ہر گزرتا لمحہ قیامت خیز بن کر حسرت ویاس میں تبدیل ہوتا گیا۔
ریحان کے رشتے کے دادا عمیر شیخ نے جنگ کو بتایا کہ سانگھڑ کی اس کی یونی ورسٹی کی ایک طالبہ جس کو ریحان شیخ نے منہ بولی بہن بنایا ہوا تھا اور وہ ریحان کے گھر آکر ایک روز اس کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کر اور پورے دن رہ کر جاچکی تھی۔
ریحان کے اہل خانہ نے اس سے بھی اس کے گھر سانگھڑ جاکر ملاقات کی تو اس طالبہ کے گھر والوں نے بتایا کہ ریحان ان کے گھر نہیں آیا اور ان کی لڑکی بھی گھر سے باہر نہیں رہی ہے ۔اس دوران ہر جگہ سے مایوس کن جواب کے بعد ایس ایس پی ضلع شہید بے نظیر آباد ریٹائرڈ کیپٹن امیر سعود مگسی کو ریحان شیخ کی تصویر اور اس کے زیر استمال موبائل فون نمبر دیا گیا۔ تاہم بقول ایس ایس پی کے اس کا سسٹم میں تلاش کا طریقہ کار اختیار کیے جانے کے بعد کوئی اتا پتہ نہیں ملا۔
عمیر شیخ کے مطابق اس طرح دن گزرتے گئے اور سات دسمبر کی تاریخ کو گم ہونے والے ریحان کی تلاش میں ایک ماہ گزر گیا۔ تاہم سات جنوری کو سرھاری شہر سے آنے والے ایک گاہک نے ریحان کے والد کو بتایا کے ان کے شہر سے گزرنے والے واٹر کورس سے چودہ دسمبر کو ایک نوجوان کی نعش ملی تھی جو کہ پولیس نے ایدھی کے رضا کاروں کے حوالے کردی، جنہوں نے ٹنڈو آدم میں لا وارثوں کے قبرستان میں دفنا دیا تھا۔
عمیر شیخ نے بتایا کہ اس اطلاع پر ہم نے سرھاری تھانے کے ایس ایچ او غلام فرید ذرداری سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ امیر بحر مائنر میں لاش کی اطلاع پر پولیس پہنچی، تو معلوم ہوا کہ نعش کسی نوجوان کی ہے۔
اور اس نے صرف شلوار پہنی ہوئی تھی، جب کہ قمیض بنیان اور سوئٹر غائب تھی۔ ایس ایچ او سرھاری پولیس اسٹیشن کا کہنا تھا کہ انہوں اس سلسلے میں نعش کو تعلقہ اسپتال شہداد پور منتقل کرایا، جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد نعش ایدھی کے رضاکاروں کے حوالے کردی گئی اور انہوں نے ٹنڈو آدم میں ایدھی سینٹر کی جانب سے بنائے گئے لا وارثوں کے قبرستان میں اسے دفنا دیا۔
عمیر شیخ نے بتایا کہ اس سلسلے میں جب ہم نے میت کو غسل دینے والے سے جسم پر تشدد کے نشانات کے بارے میں پوچھا، تو اس کا کہنا تھا کہ اس نے نعش پر گولی وغیرہ کا نشان تو نہیں دیکھا، البتہ دیگر تشدد کا اسے علم نہیں۔ عمیر شیخ نے کہا کہ اس سلسلے میں ورثاء نے جوڈیشل مجسٹریٹ شہداد پور شفیق کھرل کو درخواست دی کہ سرھاری پولیس نے لاوارث نعش ملنے کے بعد ورثاء کی تلاش کے لیے مروجہ قانون کے مطابق نعش کو سرد خانے میں رکھوا کر اس کی تصاویر ایس ایس پی آفس کے کنٹرول روم میں کیوں نہیں بھجوائی، اگر ایسا کرلیا جاتا تو ہمیں اس کی اطلاع ہوجاتی اور ہم اپنے پیارے کے جسد خاکی کو اپنے ہاتھوں سپرد خاک کرتے۔
عمیر شیخ نے کہا کہ اس کے علی الرغم ہمیں جو تصویر شہداد پور اسپتال سے ملی، وہ واضع نہیں تھی۔ تاہم ٹنڈو آدم ایدھی کے رضا کاروں نے غسل کے وقت جو تصویر اتاری وہ واضع تھی، جس سے ہمیں شناخت میں مدد ملی کہ یہی ہمارا لخت جگر ریحان ہے، جس کے سہرے کے پھول سجانے کی تمنا میں اس کا والد ،والدہ دادا ،دادی اور بہن بھائی تمنا کررہے تھا۔ اس سلسلے میں جوڈیشل مجسٹریٹ شفیق کھرل نے ریحان کی موت کی وجوہات کے سلسلے میں اجزاء روہڑی لیبارٹری بھجوائے، جب کہ ایس ایچ او سرھاری کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
جس میں ان سے پوچھا ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ نعش ملنے کے بعد قانون کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے کیوں رجوع نہیں کیا اور اپنے طور پر نعش کی بغیر مجسٹریٹ کی موجودگی کے کیسے تدفین کرائی گئی، جب کہ اس سلسلے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ورثاء کے مطابق جب متعلقہ پولیس اسٹیشن پر ریحان کی گمشدگی کی این سی داخل کرادی گئی تھی اور اس کا موبائل نمبر اور موبایل سیٹ کی تمام معلومات بھی مہیا کردی گئیں، تو محکمہ پولیس نے اس سلسلے میں کیوں کوشش نہیں کی کہ گمشدہ ریحان کا سراغ مل جاتا اور اس کی جان بچ جاتی اور انیس سالہ ریحان اپنے گھر واپس آجاتا۔
اس سلسلے میں عمیر شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک ماہ جس اذیت سے گزارا، وہ اپنی جگہ، لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ ریحان کے قاتلوں کو جن سے ملنے کا کہہ کر وہ گیا تھا ، سامنے لاکر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ، تاکہ آئندہ پھر کسی کا لخت جگر اس طرح موت کے گھاٹ نہ اتارا جاسکے، جب کہ محکمہ پولیس کے افسران کی ازسر نو تربیت کی جانی چاہیے تاکہ وہ تفتیش کو بہتر انداز میں کرکے جرائم اور مجرموں کا خاتمہ کرسکیں۔