• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال میں بھی سندھ پولیس مشکلات سے دوچار، اپ گریڈیشن نہ ہونے مراعات سمیت دیگر وعدوں پر عمل نہ کیے جانے کے باعث مسائل جوں کے توں رہے،خاص طور پر ہزاروں افراد کو موٹر سائیکلوں موبائل فونز سے محروم کردیا گیا، پولیس کی امن و امان پر توجہ کم پیپلز پارٹی کے وزراء اراکین اسمبلی ان کے فرزندان کے ساتھ سابق اراکین اسمبلی کے پروٹوکول پر توجہ زیادہ دکھائی دی۔ 

وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والی سندھ حکومت نے سال 2021 میں بھی سندھ پولیس سے کیے گئے وعدے اور ان کے مسائل کے حل پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی ، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صوبے کی اہم ترین وزرات داخلہ میں 2018 سے آج تک کوئی وزیر داخلہ ہی نہیں لایا جاسکا۔ کیا اتنی بڑی سیاسی جماعت 100 اراکین اسمبلی وزیر داخلہ جیسے اہم عہدے کی وزرات کا کوئی اہل نہیں،جو وزیر اعلی سندھ پر یہ اضافی بوجھ بھی ڈال رکھا ہے۔ وزیر داخلہ نہ ہونے کے باعث پولیس کے بیشتر معاملات التواء کا شکار ہیں۔ 

گزشتہ سال ڈی آئی جی لاڑکانہ کی جانب سے کشمور ، شکارپور کچے کے خطرناک ڈاکوؤں کے سروں پر انعامی رقم مقرر کرنے اور بڑھانے کے حوالے سے بھیجی گئی شفارشات منظوری کے لیے وزرات داخلہ میں پڑی ہیں اور اس دوران کئی ڈاکو بھی مارے گئے، لیکن اس اہم ترین لسسٹوں پر شاید مٹی تو پڑی ہو، لیکن اب تک وزیر اعلی سندھ یا وزرات داخلہ کی نظر نہیں پڑی، پولیس کو اپ گریڈیشن، دوسرے صوبوں کے مساوی تنخواہوں اور ان کے دیگر مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے درمیان سرد جنگ کی باتیں منظر عام پر آتی رہیں، جس کے باعث پولیس کی مشکلات میں اضافہ ہوا ، وزیر اعلی سندھ نے شکارپور میں گزشتہ سال پولیس اہلکاروں کی شہادت پر جو اعلان کیے، کیا ان پر عمل کیا جاسکا۔ 

کشمور کے ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پولیس کی مشکلات اور ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحے کے حوالے سے جو بریفنگ دی، جس کے بعد وفاقی سطح پر بھی ایک اعلان اور یقین دھانی کے علاوہ کسی نے پولیس کے لیے کچھ نہ کیا، کشمور اور شکارپور اضلاع میں ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے پولیس نے نامسائد حالات کے باوجود تاریخی کامیابیاں حاصل کیں، لیکن حکومت سندھ نے اس حوالے سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا، کشمور اور شکارپور پولیس کو بلٹ پروف بوٹس ، فور بائے فور گاڑیاں، جدید اسلحہ، فنڈز ، اضافی نفری کچھ بھی تو نہیں ملا، آخر کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت اس اہم شعبے کی جانب توجہ دینے کو کیوں تیار دکھائی نہیں دیتی، سب سے زیادہ مسائل کا سامنا پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے آبائی حلقے اور پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ رینج کی پولیس کو ہے۔ 

آج بھی لاڑکانہ رینج میں پولیس اہلکاروں کی 6 ہزار اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ آج بھی شکارپور اور کشمور میں پولیس حکومت کی خاطر خواہ سپورٹ نہ ہونے کم نفری اور محدود وسائل کے ساتھ ڈاکوؤں کے خلاف لڑ رہی ہے، بلکہ بڑی حد تک ڈاکو راج کا قلع قمع کیا ہے، کئی بدنام زمانہ ڈاکو مارے گئے اور اس وقت کئی سو ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر کچے میں موجود ہیں پولیس نے تو وہ کر دکھایا، جو شائد ناممکن تھا، لیکن حکومت نے جو کہا، وہ بھی نہیں کیا، وزراء کو پروٹوکول یا سیکیورٹی قانون کے مطابق حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن یہاں تو وزراء اراکین اسمبلی، سابق سینیٹر اور سابق اراکین اسمبلی بھی بغیر پروٹوکول کے نہیں گھومتے،اکثر وزرا اور اراکین اسمبلی کے بیٹے بھی پولیس کی دو دو موبائلوں کے ساتھ نہ صرف اپنے شہروں میں، بلکہ بیرون شہر بھی جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تھانوں پر نفری کم ہونے اور پولیس امن و امان پر خاطر خواہ توجہ کے بجائے پروٹوکول کی فکر زیادہ ہونے سے جرائم خاص طور پر اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، اور پولیس میں سیاسی مداخلت کے باعث سندھ کے تعلق رکھنے والے سینئر پولیس وفاقی اداروں اور سائڈ پوسٹوں پر تعینات ہیں، اور حالیہ تعینات ہونے والے ایس ایس پی گھوٹکی عمران مغل، جنہیں اے ایس پی سے ایس پی بنے صرف 6 سے 8 آٹھ ماہ ہوئے ہیں ، انہیں ایس ایس پی گھوٹکی لگا دیا گیا۔ 

حالاں کہ متعدد مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ کشمور شکارپور، سکھر اور گھوٹکی اضلاع کچے کے جنگلات اور دریائی حصہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور جب کہ کشمور سائیڈ سے پنجاب اور بلوچستان سے ملا ہوا ہے اور سکھر لاڑکانہ رینج میں کشمور اور شکارپور میں 19 گریڈ کے سینئر افسران امجد احمد شیخ اور تنویر حسین تنیو، جب کہ سکھر میں18 گریڈ کے سینئر افسر، جنہیں 18 ویں گریڈ میں 4 سے 5 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ ایس ایس پی عرفان علی سموں تعیبات ہیں اور یہ ایک بہتر ٹیم ورک کے ساتھ کام کررہے ہیں ، لیکن گھوٹکی ضلع جو کہ ڈاکوؤں کے حوالے خطرناک ہے ، وہاں موجودہ ایس ایس پی کے آتے ہی ڈاکوؤں نے پولیس اہلکار کو شہید کیا اور اس سے قبل بھی پولیس کو جانی مالی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ 

پولیس اہلکار کو شہید کرنے کے بعد ڈاکوؤں نے دو افراد کو نہ صرف اغوا کیا، بلکہ دھمکی بھی دی کہ ان کے گرفتار ساتھی کو کچھ ہوا، تو موٹر وے بند کردیں گے، وہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی جی سندھ اور حکومت کی جانب سے کسی سینئر افسر کی تعیناتی کی جاتی، لیکن ایسا نہ ہوا اور گریڈ 19 کے متعدد افسران اس وقت بھی سی پی او یا سائیڈ پوسٹوں پربیٹھے ہیں اور جونئیر افسران مختلف اضلاع میں تعینات ہیں، یہ صرف گھوٹکی نہیں ایسا کچھ دیگر اضلاع میں دیکھا گیا ہے، ہمارا کام تو نشاندہی کرنا ہے ،باقی بہتر تو آئی جی پولیس اور وزیر اعلی سندھ ہی جانتے ہوں گے، پہلے سندھ میں پولیس کے ایشوز پر اپوزیشن بہت زیادہ آواز بلند کرتی تھی، لیکن وہ بھی نہ جانے کیوں خاموش ہوگئی ہے۔ اب اگر بات کی جائے تو کشمور شکارپور اور سکھر اضلاع میں پولیس نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں۔ 

خیرپور میں بدامنی عروج پر رہی اور خیرپور پولیس تاحال ڈاکوؤں کے خلاف نہ کوئی خاطر خواہ آپریشن کرسکی اور نہ ہی مکمل امن بحال ہوسکا، درجنوں افراد قبائلی جھگڑوں میں مارے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ خیرپور میں ایک موٹر کی چوری پر 5 افراد قتل ہوگئے، لیکن پولیس کی خیرپور میں رٹ کمزور سے کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ 

ادھر ضلع شکارپور میں پولیس کی کامیابیوں کا سال رہا6 ماہ میں12 سے زائد ڈاکو مارے گئے ، درجنوں زخمی ہوئے، جن میں دھشت کی علامت بنا ہوا بدنام ڈاکو جھنگل تیغانی اپنے ساتھی جان محمد تیغانی کے ساتھ مارا گیا اور جھرکی تعغانی سمیت کئی بدنام ڈاکو مارے گئے 2021 کے بہترین رینج کمانڈر ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ رہے، جو نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے وہ واحد ڈی آئی جی ہیں،جن کی سربراہی میں پولیس نے شکارپور اور کشمور کچے کے مشکل ترین جنگلات میں درجنوں انعام یافتہ بدنام زمانہ ڈاکوؤں کو مارنے کا اعزاز حاصل کیا، جن پر مجموعی طور پر تین کڑور سے زائد انعامی رقم تھی اور یہ کامیابی کئی دہائیوں بعد کسی ڈی آئی جی سطح کے افسر کے حصے میں آئی ہے، جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے سخت گرم سرد موسم میں اپنے بنگلے اور دفتر میں رہنے کے بجائے زیادہ وقت کچے کے جنگلات میں گزارا اور پولیس کا مورال بلند کیا۔ 

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سکھر شکارپور خاص طور پر کشمور میں سال 2021 ڈاکو راج کے خاتمے اور پولیس کے عروج کا سال رہا، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پولیس کی تابڑ توڑ کارروائیوں اور کام یاب آپریشن کا سال رہا، متعدد بدنام زمانہ انعام یافتہ ایک درجن سے زائد ڈاکو مارے گئے، اور زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، کڑوروں روپے مالیت کا مسروقہ سامان اسلحہ، منشیات برآمد کی گئیں برآمد کئے گئے۔ اسلحے میں اینٹی ائیر کرافٹ گنز اور راکٹ لانچر جی تھری سمیت دیگر جدید خود کار ہتھیار شامل ہیں، کشمور پولیس کی کچے کے خطرناک علاقوں میں کامیاب کارروائیوں پر آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کی پیشہ ورانہ خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اور ان کی ٹیم کو 30 لاکھ روپے نقد انعام دیا گیا۔ 

سندھ میں سب سے زیادہ کامیاب کارروائیاں پولیس نے کشمور کچے کے علاقوں اور جنگلات دریائی جزیرے میں کیں، جہاں پولیس کبھی جاتی نہیں تھی، وہاں پولیس اب پکنک مناتی ہے، چوکیاں قائم ہیں اور ڈاکو راج کے خاتمے کے ساتھ کڑوروں روپے کی سرکاری زرعی اراضی واگزار کرائی، نو گو ایریا ختم کرائے، مستقل پولیس چوکیاں قائم کیں، ترجمان پولیس کے مطابق آپریشنل کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ کی سربراہی میں کچے کے خطرناک علاقے درانی مہر اور دیگر جنگلات اور کچے کے علاقوں دریائی جزیرے میں ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے جاری آپریشن کے دوران 147 پولیس مقابلوں میں ڈاکوؤں کے خطرناک ٹولے، سبزوئی گینگ کا سرغنہ انعام یافتہ بدنام ڈاکو ٹکر سبزوئی 4 ساتھیوں سمیت مارا گیا، جس پر ایک کڑور روپے انعام مقرر ہے، 21 ڈاکو مارے گئے، 2 انعام یافتہ، 69 زخمی حالت سمیت 274 ڈاکوؤں کو گرفتار کیا گیا۔ 71 ایسے ڈاکو بھی شامل ہیں، جن کی گرفتاری پر خطیر رقم بطور انعام سفارش مقرر کی گئی ہے، 5 ہزار 653 اشتہاری و روپوش ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جب کہ پولیس نے متعدد کامیاب کارروائیوں میں 113 اغوا کاروں کو بھی گرفتار کیا۔ 

پولیس آپریشن کے دوران78 گروہوں کا خاتمہ کیا گیا، کچے کے علاقوں سے آپریشن کے ذریعے 65 مغویوں کو ڈاکوؤں کے چنگل سے بازیاب کرایا گیا۔98 افراد کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اغوا ہونے سے بچایا گیا، 283 افراد کو فون کے ذریعے متنبہ کیا گیا کہ اغوا کار آپ کو اغوا کرسکتے ہیں، لہذا ان علاقوں کا رخ نہ کریں۔

مجموعی طور پر 446 افراد کو ڈاکوؤں کے چنگل سے بچایا گیا۔ گرفتار ہونے والے ڈاکوؤں اور دیگر ملزمان سے جدید ترین خود کار ہتھیار، جن میں 3 اینٹی ایئر کرافٹ گن، 2 ایل ایم جی، 4 راکٹ لانچر، 4 اسنائپر رائفل، 35 کلاشنکوف، 16 رائفل، 61 شارٹ گن، 78 پسٹل، 3 کلو گرام بارودی مواد، 16 شیل لانچر، 11 ہینڈ گرنیڈ، ہزاروں گولیاں شامل ہیں، برآمد کی گئیں، مختلف کارروائیوں میں پولیس نے کڑوروں روپے مالیت کی مسروقہ اشیاء برآمد کیں، جن میں 136 موٹر سائیکلیں، 114 موبائل فونز، 2 ٹریکٹر، 2 کاریں، ایک ڈاٹسن برآمد کیں، غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر 167 مقدمات درج ہوئے، 167ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 102 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے 835 کلو گرام چرس، 265 کلو گرام بھنگ، 1346 بوتلیں شراب، 3 ہزار 135 لیٹر کچی شراب، گٹکا پان پراگ کے 187 پیکٹس برآمد ہوئے۔ چوری، ڈکیتی کے 61 مقدمات میں 173 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے چوری شدہ 78000 مختلف اقسام کی چیزیں برآمد کی گئیں۔

کشمور میں پولیس نے سال 2021 میں وہ کامیابیاں حاصل کیں، جو پولیس کئی دہائیوں میں حاصل نہیں کرسکی ہے اور ایس ایس پی کشمور کی بہتر حکمت عملی کے تحت پولیس کو نقصان سے مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا اور بڑی تعداد میں ڈاکوؤں کا قلع قمع کرکے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور ڈاکو راج کا کچے کے علاقوں سے اب خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، پولیس کی جانب سے کشمور ضلع کچے کے علاقوں سمیت ضلع بھر میں پولیس ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں مصروف عمل ہے۔ 

کچے کے علاقوں میں ایس ایس پی امجد احمد شیخ کا کیمپ موجود ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کی مکمل سرکوبی تک کچے کو نہیں چھوڑیں گے ، بلکہ ان جنگلات میں ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کا مکمل صفایا اور مستقل پولیس چوکیاں قائم کرکے ایسا پکنک ایریا بنائیں گے ،جہاں سندھ سمیت ملک بھر سے لوگ تفریح کے لیے آئیں گے اور انجوائے کریں گے۔ یہ تو ہے پولیس کمانڈر کا عزم، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت بھی قدم بڑھائے اور پولیس کی فنڈز سمیت تمام آپریشنل ضروریات کو پورا کیا جائے، تاکہ پولیس سوفی صد نتائج کے ساتھ کچے کے ان خطرناک علاقوں میں مثالی امن قائم کرکے اسے امن کا گہوارہ بناسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید