• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکیل نجیب

میں اسکول سے چھٹی لے کر اپنے ماموں کی شادی میں گاؤں گیا تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد جب اسکول آیا تو مجھے کلاس میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔ دراصل میرے سامنے بیٹھنے والا شہزاد اپنی سیٹ پرنہیں تھا ۔ ہاف ٹائم میں، اپنے ارشد سے پوچھا، ’’آج شہزاد اسکول نہیں آیا۔‘‘

اُس نے کہا،’’وہ گزشتہ پانچ دنوں سے اسکول نہیں آرہا ہے اور شاید اب آئے گا بھی نہیں۔‘‘

’’کیوں؟ کیا بات ہوگئی؟‘‘

’’فٹبال کی پریکٹس کے وقت اس کاعرفان سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے شہزاد کو بہت مارا۔ اس کا بستہ پھینک دیا اور کپڑے بھی پھاڑ دیے۔ اس کے ابو آئے تھے ہیڈ ماسٹر صاحب سے شکایت کرنے۔ انہوں نے شہزاد کےابو کو سمجھا بجھا کر واپس کردیا اورعرفان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس لئے شہزاد کے ابو نے اسے اسکول نہیں آنے دیا، اب وہ اپنےابوکے ساتھ اُن کی دکان پر بیٹھتاہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’ارے یہ تو بہت برا ہوا۔ غریب لڑکے کو اس طرح مارنا نہیں چاہئے تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی۔‘‘

ارشدنے کہا، ’’عرفان کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا، اس کے دادا جی اسکول کے صدر ہیں۔ ان کی نوکری خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘

’’لیکن ایک غریب اور ذہین بچے کی زندگی برباد ہورہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘

’’تم کو تو معلوم ہےعرفان کتنا بد تمیز ہے کوئی اس سے دشمنی لینے کی ہمت نہیں کرتا۔‘‘

میں نے کہا، ’’میں ہمت کروں گا، تاکہ ایک ذہین لڑکے کی تعلیم کا سلسلہ ختم نہ ہونے پائے۔‘‘

’’تم کیا کروگے؟‘‘

’’میں اس کے دادا جی سے اس کی شکایت کروں گا، وہ بہت نیک آدمی ہیں۔‘‘

ارشدنے کہا، ’’اچھے سے سوچ لو۔ عرفان سے دشمنی مول لینا تمہارے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘

’’میں ہر خطرے سے نمٹوں گا تاکہ شہزاد تعلیم حاصل کرسکے، کچھ بن سکے۔‘‘ اسکول سے چھٹی کے بعد میں گھر آیا اور شہزاد کی اچھائیاں، ذہانت اور کھیل کود میں اس کی عمدہ کارکردگی کو بیان کرتے ہوئے عرفان کی بری حرکتوں کی بابت ایک تفصیلی خط لکھا اور شام کے وقت عرفان کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس وقت اس کے دادا جی گھر میں ہی ہوتے ہیں اور اُس وقت عرفان گھر سے باہر کھیلنے جاتا ہے۔ دادا جی سامنے ہی لان میں بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے تھے۔ 

میں سلام کر کے ان کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہ حیرت سےمیری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کہا، ’’میرا نام اسد ہے میں عرفان کے ساتھ پڑھتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے وہ تفصیلی خط دادا جی کے ہاتھ میں دے دیا۔ جیسے جیسے وہ خط پڑھتے جارہے تھے ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا جارہا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے خط پڑھ کر ختم کیا ، اسی وقت عرفان گھر میں داخل ہوا۔ مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ 

دادا جی کے ہاتھ میں چٹھی موجود تھی اور غصے سے ان کا ہاتھ تھر تھر کانپ رہا تھا۔عرفان معاملے کو سمجھ نہیں پایا۔ دادا جی کو سلام کر کے وہ ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ دادا جی کھڑے ہوگئے اورعرفان کے قریب جاکرایک زور دار طمانچہ اس کے گال پر مارا اور کہا، ’’اپنی طاقت اور دولت کا غلط استعمال کر رہے ہو تم! شہزاد کو تم نے کیوں مارا؟‘‘

’’دادا جی وہ مجھ سے منہ زوری کر رہا تھا۔‘‘

’’اچھا! کھیل کے دوران کچھ کم زیادہ ہوجائے تو تم اسے ماروگے؟ ایک غریب لڑکے کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہو تم۔ ابھی میرے ساتھ اس کے گھر چلو اور اس سے معافی مانگو۔ چلو میرے ساتھ۔’’اورتم بھی ہمارے ساتھ چلو ‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا۔

دادا جی نے اپنی کار نکلوائی اور ہم شہزاد کے گھر کی طرف چل دیے۔ میں نے ایک جگہ کار رکوائی اور چند گلیوں کو پار کر کےہم ایک چھوٹے سےمکان کے سامنے رک گئے۔ دروازہ کھلا ہوا تھا اندر ایک بلب جل رہا تھا۔ ایک کونے میں کھانے پکانے کا سامان رکھا ہوا تھا، دوسرے کونے میں ایک عورت سلائی مشین پر کپڑے سی رہی تھی۔ قریب ہی ایک لڑکی بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی، اُسی وقت شہزاد اپنے ابو کے ساتھ دکان سے آیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر دونوں بہت حیران ہوئے۔ 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے عرفان کے دادا نےشہزاد کے ابو کو مخاطب کر کے کہا، ’’بھائی جی، میں اس نالائق لڑکے کا دادا ہوں اور اسکول کا صدر بھی ہوں۔ میرے پوتے نے تمہارے بیٹے کے ساتھ جو سلوک کیا ہے میں اس کے لئے تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے اور میرے پوتے کو معاف کردو۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نےعرفان کو اشارہ کیا۔ 

وہ آگے بڑھا اس نے شہزاد کو گلے لگا یا اور رنجیدہ لہجے میں بولا، ’’شہزاد مجھے معاف کردو، مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی۔ تعلیم ختم نہیں کرو ۔ اسکول آنے لگو ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر اُس نےشہزاد کے ابو سے کہا، ’’انکل اسے اسکول آنے سے مت رو کیئے۔ میں خود اس کی مدد کروں گا۔ میری غلط حرکت کے لئے مجھے بھی معاف کردیجئے۔‘‘

شہزاد کے ابو نے عرفان کو گلے سے لگا یا اور کہا، ’’اتنے بڑے آدمی مجھ غریب آدمی کے گھر معافی مانگنے آئے ہیں اس سے بڑی بات میرے لئے اور کیا ہوسکتی ہے، بیٹا ۔ شہزاد کل سے اسکول آئے گا۔‘‘

عرفان نے شہزاد سے ہاتھ ملایا پھر مجھ سے ہاتھ ملا کر بولا اسدتم نے دوستی کا حق ادا کیا اور مجھے بھی اپنی غلطیوں کا احساس دلادیا ہے، بہت بہت شکریہ۔ عرفان کے دادا کے چہرے پر اطمینان تھا۔ واپسی پر وہ پوتے کو سمجھاتے رہے ۔ میں بھی خوش تھا کہ میرے دوست کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا ۔

بچو! آپ بھی کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ ہر ایک کی مدد کریں۔ مل جل کر رہیں۔