• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کسی بھی معاشرے میں پولیس کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، پولیس کے کردار اور پولیس کے اندر پروفیشنل اصلاحات کے لیے باقاعدہ کام کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی گزشتہ چند برسوں میں پولیس کی اصلاحات اور اپ گریڈیشن، پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہت زیادہ کام ہوا ہے، لیکن افسوس کہ سندھ میں پولیس کی اصلاحات اور اپ گریڈیشن کے حوالے سے اعلانات تو ہوئے، لیکن عملی طور پر کام دکھائی نہیں دیا۔ 

سندھ پولیس آج بھی مسائل مشکلات سے دوچار دکھائی دیتی ہے اور ایسے اضلاع جو امن و امان کے حوالے سے بہت متاثر ہوں کچے کے جنگلات میں ڈاکو راج دکھائی دے رہا ہو، پولیس افسران یہ کہہ رہے ہوں کہ ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ ہے، اس کے باوجود حکومت کا کوئی عملی اقدام نہ کرنا اور ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی آپریشنل ضروریات کو عملی جامہ پہنانے کے بہ جائے اعلانات اور وعدوں تک محدود رکھنا، ان مشکلات کے باوجود پولیس فورس کی ان بدامنی اور اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری تصور کیے جانے والے اضلاع کشمور اور شکارپور میں کئی دہائیوں بعد ریکارڈ کام یابیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہماری پولیس کسی بھی صوبے کی پولیس سے کم نہیں ہے۔ 

اگر پولیس کی آپریشنل ضروریات پُوری کردی جاتیں تو، نتائج کا اندازہ موجودہ کارکردگی سے لگایا جاسکتا تھا، ہمیں اب اعلانات سے نکل کر پولیس جیسے اہم شعبے کی اپ گریڈیشن اور اسے جدید خطوط پر استوار کرکے پولیس کے مورال کو مذید بلند کرنا ہوگا، کیوں کہ ان نامسائد حالات میں بھی سندھ میں ڈاکو راج کا خاتمہ اور پولیس کی جانب سے مسلسل کام یابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 

کچے کے علاقے میں مقابلے کے دوران تین بدنام زمانہ ڈاکو جن پر انعامی رقم مقرر تھی، مارے گئے، جن میں سے ایک کا تعلق بدنام زمانہ چھوٹو گینگ سے تھا، ڈاکوؤں کے قبضے سے جدید ہتھیار بھی برآمد کئے گئیے ہیں، پولیس کی سال نو کے آغاز پر یہ بڑی کام یابی تھی، کیون کہ سندھ میں کچے کے علاقے اور جنگلات جو سکھر اور لاڑکانہ رینج میں آتے ہیں، یہ کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کئے جاتے ہیں، جہاں آج بھی ڈاکو راج موجود دکھائی دیتا ہے، دریا سندھ کے ساتھ جو چار جڑواں اضلاع ہیں، ان میں سکھر ، گھوٹکی ، کشمور ، شکارپور شامل ہیں۔ 

کشمور ضلع سندھ کا مشکل ترین اور خطرناک ضلع ہے، کیوں کہ اس کی سرحد ایک جانب پنجاب کے دریائی اور کچے سے ملتی ہے، تو دوسری جانب یہ بلوچستان سے ملتی ہے، ڈاکوؤں کی کارروائیوں کے حوالے سے کشمور اور شکارپور جو جڑواں اضلاع ہیں۔ وہ ماضی میں بہت زیادہ متاثر رہے ہیں اور شکارپور میں ڈاکوؤں نے متعدد مرتبہ پولیس کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، لیکن گزشتہ سال پولیس کی جانب سے ان دونوں اضلاع میں ڈاکووں کو پہلی مرتبہ بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ ایک درجن سے زائد بدنام زمانہ ڈاکو مارے گئے جن پر کئی کڑور روپے انعام مقرر تھا اور آج ان دونوں اضلاع میں ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کی سربراہی میں آپریشن کمانڈر ایس

ایس پی کشمور امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو کی بہتر حکمت عملی ٹارگیٹڈ آپریشن کے باعث صورت حال یکسر تبدیل ہوتی جارہی ہے اور جہاں آئے روز نیشنل ہائی وے پر ڈکیتی لوٹ مار، اغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں ہوتی تھیں، اب نہ صرف ان واداتوں کا خاتمہ کیا گیا، بلکہ نیشنل ہائی وے کو بڑی حد تک محفوظ بنادیا گیا ہے ۔ 

اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی نمایاں کم ہوئی ہیں، اور کچے کے جنگلات سے اب پولیس آپریشن ، پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں، ایسا ہی چند روز قبل کشمور کچے کے علاقے حاجی خان شر میں ہوا، آپریشن کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ کے مطابق پولیس نے خفیہ اطلاع پر کچے کے علاقے میں بدنام ڈاکوؤں کی موجودگی پر آپریشن کیا اوران کے گرد گھیرا تنگ کیا، اس دوران پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلہ ہوا اور فائرنگ کے نتیجے میں 3 بدنام ڈاکو موقع پر مارے گئے مارے جانے والے ڈاکوؤں میں نظرو شر ، جئیند شر اور ابرار شامل ہیں۔ 

ہلاک ڈاکو نظر عرف نظرو کے سر کی قیمت 15 لاکھ جئیند شر کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر تھی، جب کہ ہلاک ہونے والا تیسرا ڈاکو ابرار کا تعلق جنوبی پنجاب کے ڈاکوؤں کے بدنام زمانہ گروہ چھوٹو گینگ سے تھا، مارے جانے والے ڈاکو اغوا برائے تاوان، پولیس مقابلوں ، دہشت گردی سمیت متعدد سنگین مقدمات میں سندھ پولیس کو مطلوب تھے، تینوں ڈاکو چھوٹو گینگ کے لیے سندھ اور پنجاب میں جرائم کی وارداتیں کرتے تھے، مارے جانے والے ڈاکووں کے قبضے سے ایک جی تھری رائفل اور دو کلاشن کوف درجنوں راونڈ برآمد کئے گئے ہیں، مارے جانے والے ڈاکو اکثر جدید اسلحے کے ساتھ پولیس کو دھمکیاں دیتے اور وڈیو فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے تھے۔ 

ان کے مارے جانے سے ضلع میں امن و امان کی صورت حال میں مزید بہتری آئے گی، ڈاکوؤں کو بھاری نقصان پہنچائے جانے اور تین ڈاکوؤں کے مارے جانے کی اطلاع ملتے ہی آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ سے رابطہ کیا اور انہیں ان کی ٹیم کو سال کے آغاز پر اس بڑی کام یابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ کشمور پولیس کی پیشہ ورانہ خدمات بہادری عزم اور حوصلہ قابل تحسین ہیں۔ 

اس کام یابی سے جہاں ایک جانب ڈاکوؤں کی کمر ٹوٹی ہے، تو دوسری جانب پولیس کا مورال مزید بلند ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ جیسے افسر پولیس فورس کا اثاثہ ہیں، سندھ پولیس خاص طور پر کشمور پولیس نے چند ماہ کے مختصر عرصے میں ڈاکوؤں کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ پولیس فورس کے لیے باعث فخر ہیں، امید ہے کہ کشمور پولیس اسی مورال اور جذبے کے ساتھ علاقے سے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنے میں کام یاب ہوگی۔ 

ایس ایس پی نے آئی جی سندھ کو درانی مہر سمیت کشمور کچے کے علاقوں اور جنگلات میں جاری آپریشن کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں، جب کہ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ نے بتایا کہ کشمور میں مارے گئے۔ ڈاکوؤں میں جنوبی پنجاب کے بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کا کارندہ ڈاکو ابرار بھی شامل تھا، یہ گروہ سندھ اور پنجاب میں جرائم کی وارداتیں انجام دیتا تھا، ان کے مارے جانے سے کشمور میں امن و امان کی صورت حال مزید مستحکم ہوگی۔ پولیس نے گزشتہ سات سے آٹھ ماہ میں ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی ہیں دونوں آپریشن کمانڈرمکمل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے مابین بہترین کوآرڈینیشن ہے۔

یہ اپنے اپنے اضلاع میں کچے کے راستوں کی کڑی نگرانی کرنے کے ساتھ بہتر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مورچہ بندی اور چوکیاں قائم بھی کررہے ہیں پولیس کے بہتر اقدامات اور کچے میں 24 گھنٹے موجودگی کے باعث ڈاکووں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیوں کہ پولیس ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ 

ان اضلاع میں کچے کے علاقوں میں دریائی جزیرے بھی ہیں، جس کا ڈاکو فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اب دریا میں پانی کی سطح کم ہونے کے بعد پولیس ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کو اپنی حکمت عملی کے تحت تیز کرے گی۔ کچے کے ان علاقوں میں آج پولیس چوکیاں قائم ہیں۔ پولیس موجود ہے ڈاکووں کی درجنوں پناہ گاہیں مسمار کرکے نو گو ایریا ختم کردئیے گئے ہیں اور کچے کے متعدد علاقے جہاں ڈاکو اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے تھے، وہاں اب پولیس چوکیاں قائم کرکے وہاں پولیس موجود رہتی ہے، ہمارے آپریشن کا مقصد عارضی نہیں دیرپا اور مستقل بنیادوں پر قیام امن کو یقینی بنانا ہے۔

ایس ایس پی کشمور کے مطابق درانی مہر سمیت کچے کے تمام علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے، جس میں پولیس کی بھاری نفری پولیس کمانڈوز بکتر بند اے پی سی چین گاڑیاں اور جدید اسلحے کا استعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس کے حوصلے بلند ہیں، کام یابیوں کا یہ سلسلہ پولیس جوانوں کی کوششوں سے جاری رہے گا، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت کی جانب سے پولیس کی مکمل آپریشنل ضروریات پوری کرنے کے لیے گزشتہ سال سے صرف دعوے کئے جارہے ہیں ، نہ ہی پولیس کو تاحال حکومت کی جانب سے جدید اسلحہ فراہم کیا گیا اور نہ ہی فور بائے فور گاڑیاں مل سکیں ہیں، نفری میں بھی اضافہ نہ ہوسکا، دونوں اضلاع میں آپریشن کے لیے کوئی فنڈز بھی جاری نہیں کئے گئے، بلٹ پروف کشتیوں کی سفارش کی گئی تھی، تاکہ پولیس دریا میں پیٹرولنگ کو یقینی بنائے اور ڈاکوؤں کے فرار کے راستے مذید بند ہوسکیں، لیکن اس سفارش پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا اور کشمور پولیس کو بلٹ پروف کشتیاں نہیں مل سکیں، جب کہ محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ اراضی پر قبضہ ہے اور پولیس نے کشمور میں کڑوروں روپے مالیت کی سرکاری زمین ڈاکوؤں سے واگزار کرائی ہے۔‘‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کیا ان بہترین اینٹی ڈکیٹ آپریشن کے ماہر کمانڈرز کے لیے پولیس کے بڑے اعزاز قائداعظم پولیس میڈل یا دیگر قومی اعزازات کے لیے انہیں نامزد کرتے ہیں یا نہیں یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید