• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لتا منگیشکر کی شادی، کرکٹ اور راج سنگھ ڈنگر پور

کراچی......تحریر/خالد فرشوری.....میں نے بُلبُلِ ہند لتا منگیشکر کا انٹرویو تو کبھی نہیں کیا، مگر 90 کی دہائی کے اوائل میں مرحوم معین اختر کے ساتھ ممبئی کے مختصر دورے میں، ایک ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ضرور ہوا جہاں موسیقار انو ملک کے بھائی اور اپنے میزبان ابو ملک کے توسط سے میری لتا جی کے ساتھ ایک سرسری ملاقات ہوئی۔

روایتی سفید ساڑھی میں ملبوس لتا منگیشکر سے میرا تعارف پاکستانی صحافی کے طور پر ہوا تو فرطِ جذبات سے  وہ اپنے پاکستانی مداحوں بالخصوص ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن اور استاد سلامت علی، نزاکت علی  کا نام لیتے ہوئے آبدیدہ رہیں۔

یہ نام لیتے ہوئے انہوں نے عقیدتاً ہاتھ جوڑے رکھے، اسی دوران لتا جی کے برابر میں بیٹھی ہوئی آرگنائزر خاتون نے، میرے لئے نشست چھوڑ دی، مجھے اندازہ تھا کہ لتا کے برابر بیٹھنے کے باوجود، مختصر وقت میں مجھے برصغیر کی اس لیجنڈ گائیکہ سے بہت کچھ پوچھنے کا موقع نہیں ملے گا مگر کیریئر کے اوائلِ میں سنسنی خیز سوالات کا شوق مجھے مجبور کر رہا تھا کہ اپنی ملاقات کا وقت ختم ہونے سے پہلے میں ایک مہمان پاکستانی صحافی ہونے کا ایڈوانٹیج لیتے ہوئے ان سے یہ پوچھ لوں کہ انہوں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟

براہِ راست یہ سوال کرنا بھی لتا جی کے شایانِ شان نہیں تھا، چنانچہ ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نا کرکٹ سے لتا کی محبت کو بنیاد بنا کر کوئی خبر نکلواؤں؟

سابق بھارتی کرکٹر اور بھارتی بورڈ آف کرکٹ کنٹرول کے سابق صدر راج سنگھ ڈنگر پور اور لتا جی کے جذباتی تعلقات کے حوالے سے میں پڑھتا رہا تھا، میں نے دُبئی میں ہونے والی اپنی اور ڈنگر پور کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھ لیا کہ کہ کرکٹ سے لگاؤ نے آپ کو راج سنگھ ڈنگر پور سے متعارف کروایا یا ڈنگر پور صاحب کی صحبت نے آپ کو کرکٹ کا دلدادا بنایا؟


لتا جی اس سوال پر پُرانے زمانے کی ہندوستانی عورتوں کی طرح مُسکرائیں، اور کہا کہ ’’نہیں نہیں، راج سنگھ سے تو ہمارے فیملی ٹرمز ہیں، ہمارے بھائی ہریدیانت کے ساتھ ان کی پرانی دوستی تھی اور کرکٹ کے ساتھ ہماری پُرانی دوستی تھی‘‘

لتا جی نے پاکستانیوں کے نام محبت بھرا پیغام دیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جلد کوئی موقع ملے اور وہ پاکستان آسکیں، لتا جی تو کبھی پاکستان نا آسکیں مگر ان کے گیت انہیں کروڑوں پاکستانی مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھے رہے۔

لتا منگیشکر نے، میوزک انڈسٹری پر راج کیا، درجنوں زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گیت گائے، آٹھ دہائیوں تک فن کی دنیا پر حُکمرانی کی، انہوں نے عزت شہرت دولت سب کمائی، مگر شادی کیوں نہیں کی؟

یہ سوال ان سے کرتے سب تھے اور اکثر لوگوں کو یہ پتہ بھی تھا کہ دراصل لتا نے شادی کیوں نہیں کی مگر بھارتی میڈیا بھی احتراماً ان کی نجی زندگی کے اس مخفی پہلو کو مخفی رکھ کر ان کی فنی عظمت کا پاس رکھے رہا، وہ سب کو یہی جواب دیتی تھیں کہ فنی مصروفیات اور بھائی بہنوں کو ماں کی طرح پالتے ہوئے انہیں شادی کا ٹائم ہی نا ملا۔

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ راج سنگھ ڈنگر پور اور لتا منگیشکر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، راج سنگھ ڈنگر پور راجھستان کی شاہی فیملی کے چشم و چراغ تھے، انہوں نے اپنے والد اور والیِ ڈنگر پور مہراوال لکشمن سنگھ جی سے جب لتا کے ساتھ اپنی شادی کی اجازت چاہی تو باپ نے صاف انکار کر دیا اور خاندانی روایات کے برخلاف ایسا کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی تنبیہ کر دی۔

راج سنگھ نے باپ کا حُکم مانتے ہوئے لتا سے شادی تو نا کی مگر سچے عاشق کا ثبوت دیتے ہوئے زندگی بھر کنوارے ہی رہے، لتا نے بھی پیار نبھایا اور مرتے دم تک شادی نہیں کی، راج سنگھ اور لتا کی دوستی بھی آخر دم تک برقرار رہی۔ 

راج سنگھ ڈنگر پور سن 2009 میں الزیمر کی بیماری کا شکار ہو کر چل بسے، مگر لتا کے ساتھ دنیا بھر میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے برابر والی نشست پر پائے گئے، لتا جی کی جینٹلمینز کے کھیل کرکٹ سے محبت کہہ لیں یا کرکٹ کے جینٹلمین سے محبت کا شاخسانہ، لتا کو کرکٹ سے بھی والہانہ عشق ہو گیا۔

ممبئی میں لتا کا گھر’پربھو کُنج‘ دلیپ وینگسارکر، سُنیل گو آسکر اور پھر سچن ٹنڈولکر تک کا دوسرا گھر بنا رہا، کوئی کرکٹر لتا جی کو سرسوتی ماں کہتا تھا تو کوئی پیار سے انہیں”آئی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا، یہ کرکٹ سے محبت تھی یا کرکٹر سے ناکام محبت کا اظہار تھا، مگر لتا جی نے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ سے متصل ایک گھر بھی خریدا۔

بی سی سی آئی کے ایک سابق سربراہ اور ٹی وی اینکر راجیو شُکلا نے مجھے بتایا کہ لتا جی اکثر انہیں فون کرکے بھارتی ٹیم کے میچ ہارنے کی وجوہات معلوم کیا کرتی تھیں۔ لتا جی کرکٹ کی تاریخ سے متعلق ریکارڈز بھی اپنے پاس جمع رکھتی تھیں۔ سن 1983 کا ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے منیجر بھی راج سنگھ ڈنگر پور تھے۔

فاتح ٹیم کو شایانِ شان استقبالیہ دینے کے لئے، کنگال بھارتی کرکٹ بورڈ کے پاس بمشکل 60 ہزار روپے کے فنڈز تھے، اور پانچ، دس ہزار روپے کے اسپانسرز بمشکل دستیاب ہو رہے تھے، ایسے میں، اس وقت بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر ایس این سالوے کے ذہن میں بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میری ہی طرح راج سنگھ ڈنگر پور کا نام آیا۔ اور انہوں نے راج سنگھ سے درخواست کی کہ وہ فنڈ ریزنگ کنسرٹ کے لئے لتا جی سے خُصوصی درخواست کریں۔

لتا جی نے فوراً یہ درخواست مان لی، دہلی کے اندرا گاندھی کرکٹ اسٹیڈیم میں لتا جی کا کنسرٹ ہوا، دلیپ کمار اور راجیو گاندھی بھی آئے، لتا کے ساتھ سُریش واڈیکر اور نیتن مُکیش بھی نغمہ سرا ہوئے، یہاں لتا کے بھائی ہریدیانت کا کمپوز کیا ہوا مشہور گیت 'بھارت وشوا و جیتا' پرفارم ہوا، اور اس وقت کے اعتبار سے 20 لاکھ روپے کے بھاری فنڈز جمع ہوئے، جس کی مدد سے فاتح بھارتی ٹیم کے 14 کھلاڑیوں کو ایک ایک لاکھ روپے نقد انعام مل سکا۔

جینٹلمینز کے کھیل کرکٹ یا کرکٹ کے جینٹلمن سے محبت کرنے والی لتا کی اس خدمت کے اعتراف میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے یہ مہربانی کی کہ تا دم مرگ، بھارت کے کسی بھی گراؤنڈ میں ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹ میچ کے لئے لتا جی کی دو وی آئی پی نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔

لتا منگیشکر کا اصل نام ہیما تھا مگر ان کے اسٹیج اداکار والد دینا ناتھ نے اپنے ایک تھیٹر کے کریکٹر “ لاتیکا “سے متاثر ہو کر ہیما کا نام لتا رکھ دیا اور پھر آٹھ دہائیوں تک ایک زمانہ لتا لتا کرتا رہا۔

یہ اور بات ہے کہ صرف ایک شخص تھا جو لتا منگیشکر کو پیار سے ’’مٹھو‘‘ کہتا تھا، اور وہ تھے راج سنگھ ڈنگر پور، 1942 میں مراٹھی فلم ’’کٹی حصل‘‘ کے لئے لتا جی نے اپنی زندگی کا پہلا گیت گایا تھا وہ فلم آج تک ریلیز نا ہو سکی، اور یہ راز بھی آفیشل طور پر آج تک فاش نا ہو سکا کہ سروں کی ملکہ لتا منگیشکر نے شادی کیوں نہیں کی۔

بس سب یہی جانتے ہیں کہ لتا نے اپنی زندگی فن اور بھائی بہنوں کے لئے وقف کردی تھی، جبکہ راج سنگھ ڈنگر پور لتا کے فیملی فرینڈ تھے۔۔۔۔ آہ لتا جی آہ۔

انٹرٹینمنٹ سے مزید