روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اور چین کے صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس نے پوری دُنیا کو خاصا چونکا دیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ روس اور چین کی دوستی اَٹل ہے۔ بیان میں مغربی قوتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سرد جنگ کے دور کی پالیسی اپنانے کی غلطی نہ کریں اس پالیسی کا مغرب ہی کو نقصان ہوگا۔
مشترکہ بیان سے یہ تاثر اُبھارا گیا ہے کہ روس اور چین اب دوست بھی ہیں اور عالمی سیاست میں پارٹنر بھی ہیں۔ روسی صدر نے بیان میں اس پر زور دے کر کہا کہ یوکرین اور مشرقی یورپ میں امریکہ نیٹو کو روس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیٹو کو مشرقی یورپ میں آنے نہیں دیں گے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ چونکا دینے والا بیان ایسے موقع پر دُنیا کے سامنے آیا ہے جب کہ بیجنگ میں ونٹر اولمپکس کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ درحقیقت چین کو اس پر ناراضی یا غم و غصّہ ہے۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ، کینیڈا، بھارت، آسٹریلیا، بلجیم، ڈنمارک، لیتھوانیا، کوسوو اور ایسٹوانیا نے بھی اولمپک کا بائیکاٹ کیا ہے۔
برطانیہ کے معروف رُکن پارلیمان ایان ڈینکن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین کی آمرانہ حکومت نے اپنے صوبہ سنکیانگ میں لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور آمرانہ طرز اپنا رکھا ہے ہم اس کی مذمت کرتے اور کھیلوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں، ایغور مسلمانوں کے ساتھ غیرانسانی رویئے بھی قابل مذمت ہیں۔ ایسے میں ہم چین کی حکومت کو کوئی رعایت نہیں دے سکتے۔ بھارتی حکومت نے چین کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چین نے اولمپک مشعل اس فوجی افسر کے ہاتھ میں تھمائی جو حال ہی میں لداخ کے محاذ پر تعینات تھا اس پر ہمیں حیرت ہے۔ بھارت نے سفارتی طور پر بائیکاٹ کیا۔
جاپان نے کہا کہ ہمارا کوئی وزیر یا اعلیٰ افسر ونٹر اولمپک میں شریک نہیں ہوگا، البتہ کھلاڑی شریک ہو سکتے ہیں۔
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سوئیڈن اور سلوانیا نے بائیکاٹ کی وجہ کووڈ کو بتایا اس لئے ہم شریک نہیں ہو رہے ہیں۔ بیش تر مغربی ملکوں نے اپنے اپنے کھلاڑیوں کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے موبائل فون گھر چھوڑ جائیں اور اولمپک میں برنر فون استعمال کریں۔ جبکہ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے حال ہی میں جاری کردہ بیان میں کہا کہ فرانس بائیکاٹ پالیسی کو پسند نہیں کرتا۔ کھیلوں کے مقابلے کو سیاست اور تنازعات سے دُور رکھا جائے۔
انسانی حقوق کی کئی بڑی غیرسرکاری تنظیموں نے بہت سے شہروں میں چین کی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے ہیں چین کی وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کی شدید مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ یورپی ممالک کے مختلف شہروں سمیت امریکہ اور کینیڈا میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے، سب نےچین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی ظاہر کی اور مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ونٹر اولمپک کا چار فروری کو افتتاح ہوا۔ کھیلوں کے مقابلے بیس فروری تک جاری رہیں گے۔ اس میں سو ممالک حصہ لے رہے ہیں جن کے 2900کھلاڑی شریک ہیں۔ چین اولمپک کے مقابلوں پر لگ بھگ 39 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس کے لئے چین نے تقریباً دو سال پہلے سے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ گزشتہ سال ٹوکیو اولمپکس مقابلوں میں 38گولڈ میڈل حاصل کئے تھے اب اس ونٹر اولمپک میں خاصے میڈل جیت لے گا۔ اس کے علاوہ چین یا روس کا کھیلوں کے مقابلوں میں سب سے بڑا حریف امریکہ ان کھیلوں کا بائیکاٹ کر چکا ہے۔
میدان بالکل خالی ہے اس لئے زیادہ گولڈ میڈل چین کے حصے میں آنے کی پوری اُمید ہے۔ چار فروری کو جونہی افتتاحی تقریب شروع ہوئی بتایا جاتا ہے کہ آسمان پر چھائے بادل ہٹ گئے نیلا نیلا کھلا آسمان نظر آیا اور دُھوپ چمکنے لگی۔ ایسے موسم میں برف پگھل گئی تو بہت سے برفانی کھیلوں کے مقابلے متاثر ہو سکتے ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ برف موجود اور کھیل متاثر نہیں ہوں گے۔
بیش تر تجزیہ کار پوچھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلوں کے لئے یا اس ونٹر اولمپک مقابلوں کے لئے چین زیادہ سنجیدہ نظر آتا ہے۔ یہاں تک کے چین کے صدر نے اولمپک کی افتتاحی تقریب سے پہلے روس چین کے تعلقات نہ صرف تجدید بلکہ اس سے بھی آگے کا اشارہ دیتے ہوئے مشترکہ بیان جاری کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین اولمپک کو سوفٹ اسٹریٹجی کے طورپر استعمال کر رہا ہے اور اپنا بین الاقوامی امیج مزید بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے روس کا چین کی طرف یکایک اتنا قریب آنا اس کی وجہ مشرقی یورپ کی جاری صورت حال اور برننگ ایشو یوکرین ہے جہاں نیٹو یوکرین کی ہر طرح مدد کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
روس کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی حالت میں مشرقی یورپ کو نیٹو کے ساتھ اتحاد کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ مشرقی یورپ جس میں بیشتر ممالک 1991ء میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد اس سے الگ ہو گئے تھے، روس ان کو مغرب کی طرف سے روکنا چاہتا ہے۔ معاملہ ابھی گھمبیر ہے۔ یوکرین کے مسئلے پر کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
مگر روس کی اس حکمت عملی کا مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں پر اُلٹا اَثر بھی پڑ سکتا ہے، خوفزدہ ہو کر نیٹو کی طرف جھک سکتے ہیں۔ 1991ء میں جب سابق سوویت یونین منتشر ہوا اس میں کمیونسٹ پارٹی کی کمزور معاشی پالیسیوں کے علاوہ کم ہمت، کم تجربہ کار رہنما گوربا چوف اور صدر یلسن کا بھی اہم کردار رہا ان کی لاحاصل پالیسیوں نے سوویت روس کو منتشر کر دیا اور پندرہ سے زائد مشرقی یورپی ریاستیں اور وسطی ایشیائی ریاستیں سوویت روس سے الگ ہوگئیں۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن روس کو واپس اس مقام پر لانا چاہتے ہیں جہاں 1980ء سے قبل کھڑا تھا، مگر لگتا ہے روس اس بار پھر غلط پالیسی اپنا رہا ہے کیونکہ روسی صدر نے خود کہا ہے میرے سائنس داں اور ماہرین جدید سے جدیدتر ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ کچھ بھی سہی سچ یہ ہے کہ روس دُنیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ روسی قوم مضبوط محنتی اور تعلیم یافتہ ہے اس کے علاوہ روس کے خطّہ سائبیریا اور شمالی علاقوں میں مختلف معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں یوں بھی تیل اور گیس کے ذخائر بھی روس کے پاس موجود ہیں اور روس یورپی ممالک کو تیل اور گیس فراہم کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یورپ کے تیل اور گیس کی ضروریات کا ساٹھ فیصد روس فراہم کرتا ہے۔
روس میں شطرنج کا کھیل شروع سے بہت مقبول رہا ہے اور زیادہ تر شطرنج کے عالمی مقابلوں میں روس اوّل رہا ہے۔ ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں شطرنج کے جتنے عالمی مقابلے تھے وہ روس نے جیت لئے تھے۔ ہر بار امریکہ کو شکست اُٹھانی پڑتی تھی۔ ولادی میر پیوٹن بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی اور زیرک سیاستدان مانے جاتے ہی مگر یوکرین کے مسئلے میں روس جو چالیں چل رہا ہے تاحال وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہیں۔ امریکہ نے بھی یوکرین کے مسئلے پر اپنا پانسہ پھینکا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
دُوسری جانب چین نے تائیوان کے مسئلے پر خاصا سخت رویّہ اپنا رکھا ہے۔ تائیوان کا بحری محاصرہ کر رکھا ہے اور اس کے لڑاکا طیارے تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین عالمی فوجی چھائونی کا منظر پیش کرتا ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کا اَٹوٹ انگ ہے جبکہ تائیوان اس دعویٰ کو مسترد کرتا ہے۔ یہاں نیٹو نہیں ہے اس لئے امریکہ نے اتحاد بنایا ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں اس پر چین نے سخت بیانات کے ذریعہ اس اتحاد کو چین کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ چین تقریباً عالمی سپرپاور بن چکا ہے۔ دُنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ایک طرف رقبہ کے لحاظ سے روس سب سے بڑا ملک ہے تو دُوسری طرف آبادی کے لحاظ سے چین سب سے بڑا ملک ہے۔
اس کےعلاوہ چین کی برّی فوج دُنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ چین کے پاس سب سے بڑی مارکیٹ ہے، سامان دُنیا کے ملکوں میں فروخت ہوتا ہے۔ چین کے بہت زیادہ ممالک سے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات استوار ہیں۔ چین کی بات ہر فورم پر سُنی جاتی ہے۔ دُنیا چین کو اہمیت دینے لگی ہے۔بھارت کی مثال سامنے ہے اور دُنیا جانتی ہے کہ بھارت اور چین کا سرحدی تنازع پُرانا ہے آج بھی لداخ اور تبت کے برفانی علاقوں میں چینی فوج اور بھارتی فوج آمنے سامنے ہے مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے مابین ایک سو بیس بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے دونوں ملکوں نے تنازعہ جاری رکھا ہے تو تجارت بھی جاری رکھی ہے۔ یہی سیاسی اُصول زیادہ پاپولر ہے۔
بھارت زیادہ تر خام مال چین سے خریدتا ہے۔ آج کی جدید دُنیا اور اس کی جدید صنعت میں کمپیوٹر سے لے کر طیارہ سازی میں سب سے اہم سیمی کنڈکٹر چیپ ہے، یہ زیادہ تائیوان بنا رہا ہے دُوسرے نمبر پر چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ بہت اہم کمپونینٹ ہے اس کے پیچھے دُنیا دیوانی ہے۔ تائیوان میں نسبتاً زیادہ تیار کیا جاتا ہے، بعض تجزیہ کار کہتے ہیں اس لئے چین ہر طریقہ سے تائیوان کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
چین کے مسلمانوں کے حوالے سے مغربی میڈیا میں خاصا چرچا ہے، خاص طور پر سنکیانگ میں جہاں مسلمانوں کی آبادی دو کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہے وہاں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو خصوصی کھلے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ ان سے جبری محنت کرائی جاتی ہے۔درحقیقت خلافت عثمانیہ کے دور میں سنکیانگ ایک بڑا صوبہ تھا جو ترکمانستان کہلاتا تھا چینی انقلاب کے بعد یہ صوبہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے روس اور چین میں آدھا آدھا تقسیم ہوگیا چینی حصہ جنوبی ترکمانستان اور روسی حصہ شمالی ترکمانستان کہلایا۔ چینی انقلاب کے بعد جنوبی ترکمانستان سنکیانگ کہلایا۔
اس مسئلے پر جو تنقید چینی حکومت کے خلاف کی جاتی ہے وہی تنقید روس پر شمالی حصہ پر کی جاتی رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مغربی میڈیا صرف چین پر دبائو بڑھانے کے لئے یغور یا ایغور مسلمانوں کے مسئلے کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں ورنہ مغرب کو ان مسلمانوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ جو بھی ہو مگر یہ دُرست ہے کہ سنکیانگ میں مسلمان بہت پریشان ہیں اور اپنا عقیدہ کسی صورت ترک نہیں کریں گے۔
روس اور چین کے صدر نے ونٹر اولمپک کے افتتاح کے موقع پر جس مشترکہ بیان پر دستخط کیے تھے اس کے ساتھ انگریزی ترجمے میں ایک معاہدہ کی بھی دستاویز جاری کی گئی تھی۔ اس دستاویز میں جو انگریزی کے 54 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے، کہا گیا ہے کہ چین یوکرین کے مسئلے میں روس کی حمایت کرے گا اور روس تائیوان کے مسئلے پر چین کی حمایت کرے گا۔ چین نے یوکرین کے نیٹو کا رُکن بننے پر ممکنہ خدشات کی مذمت کی ہے۔
اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ روس اور چین اپنا نیا ورلڈ آرڈر اور اپنے وضع کردہ انسانی بنیادی حقوق کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کریں گے۔ اس حوالے سے یورپی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے واضح ہے کہ ایک نئی سردجنگ کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔
سچ یہ ہے کہ دُنیا دو دَھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اب اس کے خدّوخال ظاہر ہونے شروع ہوئے ہیں۔ ایک طرف روس اور چین کے حامی ممالک ہوں گے اور دُوسری طرف امریکہ، نیٹو اور کچھ دیگر ممالک شامل ہوں گے، حالانکہ پہلے روس اور چین کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ دونوں اپنی اپنی لڑائی خود لڑیں گے، ایک دُوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے، مگر اب جاری اعلامیہ اور منسلک دستاویز سے ان دونوں کا پچھلا بیانیہ رَدّ ہو جاتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صورت حال پھر خراب ہو سکتی ہے۔ چین اپنی تجارتی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے مغرب سے ایک قدم آگے ہے۔ تجارتی مفادات کے حصول کے لئے بیشتر ممالک چین کی طرفداری پر مجبور ہوں گے۔ آج کی دُنیا میں سیاست معیشت کے تابع ہے اورچین بلاشبہ بڑی معاشی قوت بن چکا ہے۔ آگے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔