رضیہ فاروق
ایک گاؤں میں ، سلطان نامی کسان اپنی بیوی اور چار لڑکوں کے ساتھ رہتا تھا۔ سلطان کھیتوں میں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا۔ لیکن اس کے چاروں لڑکے سست اور کاہل تھے۔ جو گاؤں میں گھومتے پھرتے یا آرام کرتے رہتے تھے۔
ایک دن سلطان نے اپنی بیوی سے کہا کہ،’’ میں بڑھاپے میں بھی کھیتوں میں کام کر رہا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ میرے بعد ان لڑکوں کا کیا ہوگا، انہوں نے تو کبھی سخت محنت نہیں کی، کبھی کھیت میں نہیں گئے‘‘۔
سلطان کی بیوی نے کہا کہ،’’ آہستہ آہستہ وہ بھی کام کرنا شروع کردیں گے۔ ‘‘
وقت گزرتا گیا اور سلطان کے لڑکوں نے کوئی کام کیا اور نہ اپنے بوڑھے باپ کا احساس کیا۔ سلطان بہت بیما رہنے لگا ۔وہ پریشان تھا کہ میرے دنیا سے جانے کے بعد بیٹوں کا کیا بنے گا۔
ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ چاروں لڑکوں کو بلائے۔ اس کی بیوی نےاُنہیں بلایا ۔
سلطان نے بیٹوں سے کہا ، ’’میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کمایا ہے وہ میرے کھیتوں کے نیچے ہے۔ میرے بعد ، آپ اس سے خزانہ نکال لینا اور آپس میں بانٹ لینا۔‘‘ یہ سن کر چاروں لڑکے خوش ہوگئے۔
کچھ دنوں کے بعد سلطان کا انتقال ہوگیا۔ اس کی موت کے کچھ دن بعد، اس کے لڑکے دفن شدہ خزانہ تلاش کرنے کے لئے کھیت میں گئے ،انہوں نے صبح سے شام تک سارا کھیت کھود ڈالا لیکن انہیں کوئی خزانہ نظر نہیں آیا۔
لڑکے گھر آئے اور ماںسے کہا،’’ ماں،ا با نے ہم سے جھوٹ بولا۔ ہمیں کھیتوں میں کوئی خزانہ نہیں ملا‘‘۔ ماں نے کہا کہ ،’’ اب تم سب نے کھیت کھود ہی لیا ہے تو اس میں بیج لگاؤ۔‘‘
اس کے بعد ، لڑکوں نے بیج بوئے اور ماں کی ہدایت کے مطابق پانی دیا،کچھ دنوں کے بعد فصل اُگ آئی ۔
ماں نے بیٹوں کے ساتھ مل کر اس کی دیکھ بھال کی فصل پک کر تیار ہوگئی۔ لڑکوں نے اسے بیچ کر اچھا منافع کمایا۔
ماں نے کہا کہ، محنت ہی اصلی خزانہ ہے، یہی بات تمھارے والد تم لوگوںکو سمجھانا چاہتے تھے۔‘‘
بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اسی کو اس کا پھل ملتا ہے ۔ کاہلی کبھی ترقی نہیں کرنے دیتی ۔
اس لیے آپ بھی عہد کر لیں کہ ہمیشہ سخت محنت کریں گے کہ، یہی اصل خزانہ ہے۔