• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ذکر ہے 1969ء کا، جب ایک تفریح سے بھرپور فلم ’’نئی لیلیٰ نیا مجنوں‘‘ ریلیز ہوئی ، جس کے نغمات، فن کاروں کی کردار نگاری نے فلم بینوں کو اس قدر محظوظ کیا کہ اسے بار بار دیکھا گیا، پورے پاکستان کے سینما ہائوسز میں اس فلم کا بزنس ٹاپ پر رہا۔ 27فروری 1969ء میں عیدالاضحیٰ کے دن نمائش ہونے والی اس فلم کے پیش کار باری ملک، فلم ساز نیازی ملک تھے۔ منور رشید اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ 

ہلہ گلہ سے بھرپور اس فلم کے اسکرپٹ رائٹر اقبال رضوی تھے، جنہوں نے عوام کے لیے ایک ایسی فلم لکھی ، جسے ہر عمر ہر طبقے کے لوگوں نے پسند کیا اور آج تک اس فلم کو یاد کیا جاتا ہے۔ ایک عام فارمولا کہانی میں اقبال رضوی نے کچھ ایسی کمرشل ٹریٹمنٹ مزاح کی صورت میں شامل کیا ، جو فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ نوجوان ماڈرن نسل کو مرکزی خیال بناتے ہوئے انہوں نے دو لڑکے جمال (کمال) اور شاہد (لہری) کے ساتھ دو ماڈران لڑکیاں سلمیٰ (نسیمہ خان) شمیم (عالیہ) کی لو اسٹوری کو کچھ اس دل چسپی کے ساتھ پیش کیا کہ بات بہت پُرانی تھی، لیکن انداز بالکل نیا تھا۔ ماڈرن زمانے کی ’’نئی لیلیٰ اور نیا مجنوں‘‘ جس کی رومانس بھری کہانی میں ہر موڑ پر ایک نیا ہنگامہ اور قہقہے تھے اس لو اسٹوری میں آنسوئوں کی جگہ قہقہے تھے۔ جمال نے سلمیٰ کو بے وقوف بنانا چاہا اور سلمیٰ یہ سمجھ رہی تھی کہ اُس نے جمال کو چکر دے دیا ہے۔

دُوسری طرف شمیم اور شاہد بھی آپس میں دل لگی کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس دل لگی میں شاہد کی پٹائی بھی شمیم کی سہیلیوں کے ہاتھوں ہوئی۔ لب سڑک شاہد کو بنا کپڑوں کے ان کی خالہ سلمیٰ ممتاز نے دیکھ کر بہت کھڑی کھڑی سنائیں، سلمیٰ ممتاز ایک قدامت پسند خاتون کے کردار میں اپنے بیٹے کمال کی شادی اپنے عزیزوں میں کرنا چاہتی تھیں۔ جمال، سلمیٰ کا دیوانہ ہو چکا تھا۔ نئی لیلیٰ نیا مجنوں، کی جوں جوں ملاقاتیں ہوتی رہیں بات دِل لگی اور شرارت سے آگے بڑھ کر افسانہ محبت میں بدلنے لگی۔ سلمیٰ کے والد سیٹھ مسعود (الیاس کاشمیری) نے بھی اپنی بیٹی کی شادی اپنے ایک عزیز کے ساتھ طے کر دی تھی۔ 

سلمیٰ اور جمال ڈرامائی انداز میں اپنے والدین کے کئے ہوئے رشتوں کے خلاف ایک شرارت کرتے، جمال اندھے پن کا ڈراما کرتا ہے اور سلمیٰ لنگڑی بن کر اپنی شادی کو رُکوا لیتی ہے۔ اس طرح ان کے والدین کے طے کئے ہوئے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ جمال کی والدہ اور سلمیٰ کے والد مل کر دونوں کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ شادی والے دن دونوں کا جھوٹ ان کے والدین کے سامنے آ جاتا ہے کہ دونوں نے اپنی طے شدہ شادیاں رُکوانے کے لیے یہ ڈراما کیا تھا، جس میں شمیم اور شاہد نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا، سیٹھ مسعود اور جمال کی والدہ دونوں اس حقیقت کے بعد جمال اور سلمیٰ کی شادی روک لیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب دونوں کے والدین کو رضامند کر لیتے ہیں۔ سیٹھ مسعود، شاہد اور شمی کی شادی بھی اسی روز طے کر کے نکاح کے لیے بٹھا دیتے ہیں۔ جمال اور سلمیٰ، شمیم اور شاہد کی شادی ہو جاتی ہے۔

فلم کی آئوٹ ڈور، اِن ڈور شوٹنگز کے بارے کچھ دل چسپ باتیں!!

اس فلم کی اِن ڈور شوٹنگز زیادہ تر لاہور کے باری اسٹوڈیو میں ہوئی تھیں۔ کلب کے سیٹ، قلوپطرہ والے گانے کا سیٹ، اور دیگر کئی دل کش اور خُوب صورت آرٹ ڈائریکٹر کا کمال ہنر تھا۔ فیشن ایبل معاشرے کی عکاسی کے لیے فن کاروں کے ڈریسز بھی اُسی انداز کے بنائے گئے تھے۔ نسیمہ خان، عالیہ کے تمام ڈریسز ماسر خادم حسین نے بنائے، جب کہ ریڈی میڈ ملبوسات کے لیے جی ایم ٹیلرز کی خدمات لی گئیں۔ کمال اور لہری کے ڈریسز زیادہ تر ریڈی میڈ تھے، اُن میں کچھ ڈریسز کراچی کے عمدہ ریڈی میڈ گارمنٹس سے لیے گئے۔

ہنگاموں اور ہلہ گلہ سے بھرپور اس فلم میں مکمل طور پر کمرشل میوزک کے لیے تصدق حسین نے اُس دور کے چند بھارتی سپر ہٹ گانوں کی دُھنیں کاپی کیں، ان کی یہ دُھنیں عوام میں بڑی مقبول ہوئیں۔ گانوں کی پکچرائزیشن سے ہدایت کار منور رشید نے اس خوبی اور ہنر سے کام لیا کہ بھارتی دُھنوں کا دھبہ جو بہت بڑی خامی تھی ، ان کی عمدہ پکچرائزیشن کی وجہ سے چھپ گیا۔ دیکھنے والوں نے اس بات کو نظرانداز کر دیا کہ اپنے دور کی ایک بہت بڑی میوزیکل سپر ہٹ فلم ثابت ہوگی اور اس کے گانے آج بھی اپنی خُوب صورت پکچرائزیشن کی بدولت لوگوں میں بے حد مقبول ہیں۔ 

اس فلم کی آئوٹ ڈور شوٹنگز زیادہ تر کراچی کی خُوب صورت لوکیشن پر ہوئیں، جن کے لیے نیازی ملک نے فلم کے پورے یونٹ کے ساتھ تین ماہ تک عکس بندی جاری رکھی۔ کلفٹن، ایم اے جناح روڈ، کیماڑی، ہاکس بے اور دیگر مقامات پر فلمائے گئے مناظر اور گانے آج بھی اپنی تمام تر دل کشی اور خُوب صورتی لیے ہوئے ہیں۔ فلم کا ایک گانا اور چند مناظر کے لیے فلم کا یونٹ مری بھی گیا، جہاں نسیمہ خان اور کمال پر مقبول تیرن گانا؎ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا۔ فلمایا گیا۔ اس فلم کا میوزک اس کی ریلیز سے قبل ہی سپرہٹ ہو گیا تھا۔ 

اپنے پہلے دن ہی اس فلم نے کراچی میں اپنے مرکزی سینما جوبلی پر جب ستّر (70) ہفتوں کا بزنس مکمل کرنے کے بعد اُسے کراچی کے ایک بہت ہی خُوب صورت سینما پلازہ میں شفٹ کر دیا گیا اور عالیہ پر فلمایا ہوا زبردست ڈانسنگ سونگ جس میں وہ قلوپطرہ بنی ہوئی تھیں؎ جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔ اس گانے کو کلر میں دوبارہ ڈیولپمنٹ کروا کر جب فلم میں چلایا گیا تو جن لوگوں نے اس فلم کو ایک سے دو بار دیکھا تھا، وہ تیسری بار دیکھنے پلازہ سینما جاتے اور اس طرح اس فلم کا بزنس بہت زیادہ بڑھ گیا۔ مجموعی طور پر یہ پلاٹنیم جوبلی قرار پائی۔ اس کے بعد تھرڈ رن اور بار بار یہ فلم پورے پاکستان میں ریلیز ہوتی رہی اور ہر بار عوام اس فلم کو دیکھنے بڑی تعداد میں سینما ہائوسز کا رُخ کرتی۔ اداکاری کے حوالے سے سب سے زیادہ فلم بینوں نے لہری اور عالیہ کی کردار نگاری کو پسند کیا۔ لہری کے برجستہ مزاحیہ مکالمے اور عالیہ ڈانسر اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئے۔

اس فلم میں عمدہ کام کرنے پر لہری کو سال کے بہترین مزاحیہ اداکار، جب کہ عالیہ کو خصوصی نگار ایوارڈز ملے۔ خواتین فلم بین میں عالیہ کے مکالموں کی ادائیگی پر ایک مخصوص انداز میں خاصی بحث ہوئی۔ جب فلم ہدایت کار منور رشید نے اداکارہ عالیہ کو کہا کہ آپ کا کردار اس فلم میں بڑا اہم ہے، جو ہیروئن کی رازداں کا ہے، آپ نے بالکل مختلف انداز میں کرنا ہے، جب عالیہ نے انہیں مکالمے ایک مخصوص انداز میں سُنائے تو انہوں نے بہت تعریف کی اور ان کی ذہانت کی داد دی پھر عالیہ کا یہ انداز بہت ہی پسند کیا گیا۔اس فلم میں پشتو فلموں کے بانی ہیرو بدرمنیر اور ہیروئن یاسمین خان نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ دیگر اداکاوں میں سلمیٰ ممتاز، الیاس کاشمیری، اعجاز اختر، اسد بخاری، خلیفہ نذیر، رفیق ، اثر نظامی، اے آر بخاری، راج ملتانی، فیصل، نگو، مینا چوہدری، شمیم چوہدری، شاہدہ، آغا دلراج اور آزاد کے نام بھی شامل تھے۔

فلم کی موسیقی!!اس فلم میں کل نو گانے شامل تھے، جو سب کے سب بے حد مقبول ہوئے اور اُن سے کچھ آج بھی سپرہٹ ہیں، جن کی تفصیل کچھ یُوں ہے۔

(1) تو ہے لیلیٰ نئی میں ہوں مجنوں نیا

(سنگر احمد رشدی، نسیمہ خان) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی کمال اور نسیمہ خان)۔(2) ندیا کے بیچ گوری ہل چل مچائے رے۔(سنگر مسعود رانا، مالا کورس) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی کمال، نسیمہ خان، عالیہ، لہری کورس)۔(3) حسینہ دلربا ذرا سامنے آ۔(سنگر احمد رشدی، مالا) (نغمہ نگارموج لکھنوی) (عالیہ، کمال، نسیمہ خان، مینا چوہدری)۔(4) او میری محبوبہ بتا تو کیا ہوا۔(سنگر احمد رشدی، مالا) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی کمال، نسیمہ خان)۔(5) دیکھیے بے بیو یہ حسین اور ہیں۔(سنگر احمد رشدی، مالا کورس) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی لہری، عالیہ، یاسمین خان)۔(6) میرے ہم سفر تم بڑے سنگدل ہو۔(سنگر مالا، مسعود رانا) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی نسیمہ خان، کمال)۔(7) آ جا یوں میری پلکوں میں آ،چھیا چھیا۔(سنگر مالا، تانی بیگم) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی مینا چوہدری، شمیم چوہدری)۔(8) جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔(سنگر مالا کورس) (نغمہ گار موج لکھنوی) (فلم بندی عالیہ کورس)۔(9) دل دل سے ملے پھول کھلے پیار ملا ہے ۔

(سنگر مالا، تانی بیگم) (نغمہ نگار موج لکھنوی) (فلم بندی عالیہ، گلو، شاہدہ)۔

آج کا فلم بین اس طرح کی تفریح اور میوزک سے بھرپور فلمیں دیکھنے کے لیے منتظر ہے ، لیکن موجودہ دور کے فلم میکرز کیوں نہیں اس بات کو سمجھ پا رہے ہیں۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید