• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت اپوزیشن کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار

وزیراعظم اپنے اولین دورہ روس پر ہیں۔ دارالحکومت ماسکو میں ان کی پذیرائی، مصروفیات، معاہدوں اور کامیابیوں کے قصے اپنی جگہ لیکن امر واقع ہے وہ ایک پیچیدہ صورتحال میں روس کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو اس وقت دو لاکھ روسی فوجی یوکرائن پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنگ کسی وقت بھی شروع ہو سکتی ہے اور اگر وزیراعظم کے دورہ کے دوران ہی پیوٹن نے یوکرائن پر حملہ کا حکم دیدیا تو صورتحال کیا ہو گی؟ 

دوسری طرف خود پاکستان میں ان کی حکومت کے لئے ایک بحرانی صورتحال جنم لے چکی ہے جہاں ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین ان کی حکومت ختم کرنے ایجنڈے پر یکجا ہو چکے ہیں۔ اور پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمانی ایوانوں میں بڑی تعداد کی نمائندگی رکھنے والی وہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جو ماضی میں ایک دوسرے کی مخالف رہیں لیکن اس وقت وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کرنے لئے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں۔ 

ملک میں سیاسی عدم استحکام کی اس فضاء میں وزیراعظم کا یہ دورہ جس یکسوئی کا متقاضی ہے شاید وہ اس سے انصاف نہ کر سکیں اور یقیناً ماسکو میں ان کی توجہ اسلام آباد سے آنے والی خبروں پر زیادہ ہو گی کیونکہ اپوزیشن ملک میں ان کی عدم موجودگی کا بھی پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن وہ اپنے ملک میں ایک ایسی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں جہاں مختلف طبقات اس وقت اپنے بنیادی حقوق سے محرومی کے باعث ایک مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ 

اس کے ساتھ ساتھ محض چند روز پیشتر ہی ان کی حکومت نے ایک ایسا بل نافذ کیا ہے جس سے میڈیا کی آزادیاں سلب کئے جانے کے عزائم ظاہر ہوتے ہیں اور ملک کی پوری میڈیا انڈسٹری اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہی ہے۔ بہرحال وزیراعظم ایک مضبوط اعصاب رکھنے والی شخضیت ہیں کہ کرکٹ کے کھیل کے بعد اب وہ سیاست اور حکمرانی کے بھی ایسے کھلاڑی بن چکے ہیں جنہیں چیلنجز کا مقابلہ کرنا آتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ اپنے لئے خود چیلنج پیدا کرتے ہیں۔

بہرحال حکومت اپوزیشن کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کی ملک میں دو روزہ عدم موجودگی کے دوران اپوزیشن جو اس صورتحال سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی خواہشمند ہے اس کی منصوبہ بندی میں مصروف رہی جس کا اندازہ ان کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے اور ان سرگرمیوں سے یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ شاید 23 مارچ کے لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے اور اس سے قبل ہی حالات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے۔

اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کی ہونے والی ملاقات بھی اسی تناظر میں غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات کم و بیش چھ ماہ کے طویل تعطل کے بعد ہوئی ہے۔ اس عرصے میں دونوں شخصیات کے حوالے سے یہ تاثر قائم رہا کہ عدم رابطوں کی وجہ باہمی ناراضی تھی۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر کی حیثیت سے اپنی جاعت کی نمائندگی کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس موقع پر پی ڈی ایم کا کوئی رہنما ملاقات میں موجود نہیں تھا۔

اطلاعات کے مطابق دونوں جہاندیدہ سیاستدانوں نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور لانگ مارچ کے حوالے سے حکمت عملی کو آخری شکل دی لیکن اس تمام پیشرفت کے باوجود اپوزیشن کی کامیابی سے متعلق کئی سوالات جواب طلب ہیں اور بعض رہنمائوں کا کردار بھی۔ گزشتہ دنوں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ مسلم لیگ (ن) وزیراعظم عمران خان کو ہٹانےکے لئے اس بات پر بھی تیار ہے کہ کامیابی کی صورت میں وزارت اعظمی کا منصب آصف علی زرداری کو بھی دیا جا سکتا ہے جبکہ اب بلاول بھٹو نے پشاور میں پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی اکثریتی جماعت ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کا امیدوار مسلم لیگ (ن) ہی لائے۔ 

دونوں جانب سے میڈیا میں رپورٹ ہونے والی ان خبروں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر اپوزیشن کی کامیابی کی صورت میں نئی حکومت بنتی ہے تو اس کے لئے حالات و معاملات اتنے پیچیدہ ہوں گے کہ کوئی بھی جماعت کانٹوں کی اس سیج پر بیٹھنے کے کئے تیار نہیں۔ آزادی اظہار کے معاملات پر نظر رکھنے والے ایک ادارے ’’فریڈم نیٹ ورک‘‘کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال کےدوران پاکستان میں لگ بھگ 30 صحافیوں پرمقدمات قائم کئے گئے اور اس ضمن میں وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے محسن جمیل بیگ پر قائم کئے جانے والے مقدمات تازہ ترین واقعہ ہے اور ایسا موجودہ حکومت نے رواں ہفتے میں ایک ایسے ادارے کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کیلئے اسے قومی اسمبلی کا متعینہ شیڈول تبدیل کر کے آرڈیننس جاری کرنا پڑا کیونکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس قانون کی منظوری مشکل مرحلہ تھا۔

’’پیکا‘‘(پریوینشن آن الیکٹرونک کرائم) کے قانون پر میڈیا تنظیمیں، ارکان پارلیمنٹ، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ شعور اور آگہی رکھنے والے طبقات کی جانب سے مذمتی ردعمل اب بھی سامنے آ رہا ہے بالخصوص اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے اس میں نئی ترامیم کو مسترد کر دیا ہے گو کہ وزیر قانون فروغ نسیم اور حکومتی ترجمان آزادی اظہار کی طاقت کو محروم کر نے کیلئے مختلف دلیلیں اور جواز پیش کر رہے ہیں گو کہ یہ بات درست ہے کہ یہ قانون مسلم لیگ (ن)کی حکومت میں بنایا گیا تھا اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے اس کی مخالفت بھی کی تھی اور یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ اس قانون کا سامنا بعد میں خود مسلم لیگ (ن)ہی کو کرنا پڑے گا لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ عمل یا اقدام اس جواز کے ساتھ بدترین انداز میں دہرانے کہ ماضی کی حکومت نے بھی ایسا کیا تھا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں جواز نہیں پھر آرڈیننس کے ذریعے اس میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ آزادی صحافت کیلئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور آج صرف مسلم لیگ (ن)ہی نہیں بلکہ پوری اپوزیشن اور صحافتی تنظیمیں بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد اس ’’قانون کا سامنا‘‘ خود پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔ 

لیکن اس وقت انہیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت 2016 میں’’پیکا‘‘کا بل قومی اسمبلی میں پاس ہوا تھا سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جو قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں انہوں نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہر طرح سے قابل تحسین ہے کہ انہوں نے پاکستانی صحافیوں کو خوفزدہ کرنے اور خاموش رکھنے کیلئے بنائے جانے والے قانون کے خلاف قانون کی مدد لینے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم یہ آغاز ہے اور جس انداز سے اس قانون کیخلاف ردعمل سامنے آ رہا ہے اور سیاست میں مختلف آرا رکھنے والے افراد بھی اس ایشو پر ہم آہنگ دکھائی دے رہے ہیں اگر اس تسلسل برقرار رہتاہے تو یقیناًحکومت کو اپنے اس اقدام پر نظرثانی کرنی پڑ سکتی ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید