• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس نے یوکرین کی مشرقی سرحد کے ساتھ واقع دو اہم شہر لوہانک اور ڈیونٹس جہاں روسی بولنے والوں کی آبادی ہے جن کو یوکرین کی حکومت علیحدگی پسند کہتی ہے ان کے علاقے میں ان کی مدد کے لئے اپنے کچھ فوجی دستوں کو داخل کر دیا ہے۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن سمیت مغربی میڈیا کے زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ روس کا خاموش حملہ ہے۔ روسی فوجی دستوں کی مداخلت کے دوران یوکرین کے مذکورہ علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ یوکرین کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ہے اور جنگ شروع ہوچکی ہے۔

یوکرین اور مشرقی یورپ کے بیش تر ممالک مذاکرات پر زور دے رہے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ روس کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ روس کی یہ پرانی حکمت عملی ہےکہ وہ امن کے نام پر جنگ شروع کرتا ہے اور اب بھی یہی حکمت عملی کام کررہی ہے روس نے یوکرین کے جن شہروں میں فوجی دستے روانہ کئے ہیں وہ امن کے نام پر وہاں گئے ہیں اور روسیوں کو تحفظ دینے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ حال ہی میں روسی صدر دلادیمیر پیوٹن نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں کہا کہ ہم مسئلہ کا پرامن حل چاہتے ہیں جنگ نہیں چاہتے اور نہ روس یوکرین پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ ساٹھ کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے مسلح فوجی دستے، ٹینک اور آرٹلری سابق چیکوسلواکیہ میں داخل ہوگئے تھے اس دور میں ایک اصلاح تھی ترمیم پسند روسی ان کو اسی عنوان سے یوں پکارتا تھا کہ وہ اشتراکی انقلاب کی اپنے طور پر تشریح کرتے تھے۔ روسی فوج دو ہفتے تک چیکوسلواکیہ میں تعینات رہی مگر جنگ نہیں ہوئی۔ روس کے عسکری طاقت کے شو ڈائون نے ترمیم پسندوں کو ملک سے باہر بھاگنے پر مجبور کردیا تھا، مگر یوکرین بالکل الگ ہے۔ 

یوکرین میں آباد روسی بولنے والے جن کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا بتیس فیصد ہے اور وہ سب تقریباً مشرقی سرحد کے قریب آباد ہیں جو سرحد روس سے جڑی ہے۔ روسی آبادی کو 2014ء میں بھی ان کے رہنمائوں نے یوکرین سے الگ ہونے کی تحریک شروع کرنے پر آمادہ کیا تھا ایسی ہی شورش شروع ہوئی تھی روس نے یوکرین کا محاصرہ کرکے آبنائے کریما پر قبضہ کرلیا تھا۔

اب بھی سال2022 میں ایسی ہی تحریک پھر شروع ہوئی ہے۔ واضح رہے اس دیرینہ مسئلے پر روس یوکرین کے درمیان معاہدے موجود ہیں مگر یوکرین روس ریاست سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر باریکی سے تمام معاملہ کی چھن بین کی جائے تو اس تنازع کو کھڑا کرنے میں روس، روسی بولنے والی یوکرین کی آبادی کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ یوکرین کا رقبہ زیادہ ہے۔ مشرقی سرحد کا بہت بڑا حصہ روس سے جڑا ہے۔ 

روس چاہتا ہے کہ یوکرین اور روس کی بڑی مشرقی سرحد پر ایک محفوظ ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جائے جو یوکرین اور روس کے درمیان بفر اسٹیٹ کے طور پر کام آسکے۔ کیونکہ روس کو یہ خدشات پریشان کر رہے ہیں کہ آج یا کسی وقت یوکرین یورپی یونین میں شامل ہوگا۔ نیٹو کا بھی رکن ضرور بنے گا بلکہ نیٹو کو یوکرین کی ضرورت ہے۔ یوکرین کے ذریعے نیٹو یعنی بری فوج میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتا ہے۔ بعدازاں کچھ ایسا ہی مشرقی یورپی ممالک جو 1991ء میں روس کے دوسرے انقلاب کے بعد اس سے الگ ہوگئے تھے نیٹو میں شریک ہوں گے اس طرح یورپی یونین اور نیٹو دونوں مزید مستحکم ہوسکتے ہیں اور روس کے لئے امریکا سے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔

روس کے خدشات یکسر غلط نہیں ہیں اور ایسا ہی کچھ ہوگا۔یوکرین نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد جوہری ہتھیار تیار کرنے جارہا ہے۔ یوکرین کے پاس اس کی فنی مہارت ہے وہ ستر سال سے زائد روس کا حصہ رہا اور سوویت یونین کے دور میں سوویت فوجوں کا بڑا اڈہ یہاں قائم تھا جس میں جوہری ہتھیار بھی موجود تھے۔اس کے بعد سوویت یونین سے الگ ہونے کے بعد یوکرین نے خود جوہری ہتھیاروں کو اپنے ملک سے ختم کیا، مگر اب پھر یوکرین اس طرف جانے کی بات کر رہا ہے ۔ اس حوالے سے مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں جوہری بم کام نہیں آئے گا کیونکہ یہ دو دھاری تلوار ہے پھر جوہری ہتھیاروں اور دیگر ہتھیاروں میں روس کہیں آگے ہے۔ 

1991ء میں روس کے پاس امریکا سے زیادہ جوہری ہتھیار تھے۔ دیگر جدید ترین ہتھیار تھے، مگر آخر میں روٹی،آلو، گوشت روزگار کی شدیدکمی اس طاقتور ترین سپر پاور کو ریت کی دیوار کی طرح لے بیٹھی۔ امریکا کے معروف تجزیہ نگار صحافی جیری ملر کہتے ہیں کہ یوکرین اگر ہتھیاروں کی تیاری پر توجہ صرف کرے گا تو ملک میں مزید پسماندگی اور ابتری میں اضافہ ہوگا۔ ایسی پالیسی وضع کرنے اور اس پر فوری عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں صنعتی، زرعی اور سماجی ترقی کا باعث ہو، روزگار کے زیادہ مواقع مہیا کرے ۔ معیشت کو استحکام دے سکے۔ امریکا تریپن ریاستوں کا مجموعہ ہے وہاں کوئی ریاست یا کمیو نٹی علیحدگی کی بات نہیں کرتی ہاں سیاسی اختلافات ، نسلی تنازعات ضرور سر اٹھاتے ہیں، یہ صدیوں کے مسئلے ہیں۔

روس سے مذاکرات کئے جائیں۔ ملک میں معاشی اصلاحات اور حقیقی عوام درست پالیسیاں وضع کی جائیں۔ روسی بولنے والی آبادی کو قریب لایا جائے آپس میں مخاصمت کی پالیسی بھی شروع ہو اس کا فوری تدارک کیا جائے۔

واشنگٹن میں بعض مبصرین اور سفارتکاروں کا یہ کہنا ہے کہ یوکرین کا مسئلہ ایک طرح سے امریکی صدر کا ٹیسٹ چیک ہے کیونکہ جوبائیڈن جس طرح سے تائیوان کے مسئلے پر چین کو اور یوکرین کے مسئلے پر روس کو خبردار کر رہے ہیں اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ امریکا دنیا کی دو بہت بڑی طاقتوں کو خبردار کررہا ہے کہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔

امریکی میڈیا میں یہ بات بھی چل رہی ہے کہ چین جس طرح چپ سادھے بیٹھا ہے اس پراسرار خاموشی کا کیا مطلب ہے۔ میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر مغربی قوتوں کا کیا ردعمل ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی تائیوان پالیسی پر ایک نظر ڈالے۔ کیونکہ چین اپنے معاملات میں بہت حساس ہے اور اس کے ایجنڈے پر بہت کچھ ہے۔ بہت آگے کی سوچ رکھتا ہے۔

وال اسٹریٹ کے تجزیہ نگار ڈین ہاک کہتے ہیں ۔ روس کی دھمکیاں اور اقدام محض یوکرین کو خوفزدہ کرکے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہے ۔ اس سے زیادہ روس اور کچھ نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر امریکا اور نیٹو سے جھگڑا مول لے کر وہ دنیا کے بہت سے ملکوں سے ناراضی مول نہیں لے سکتا پھر اس کو مزید سخت پابندیوں سے بھی گزرنا پڑے گا۔ ایسے میں یہ تجزیہ کار یوکرین پر بڑے روسی حملے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ 

یوکرین کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو امریکا کی دعوت پر بلایا گیا تھا روس کے خلاف قرار داد امریکا نے پیش کی ایسے میں بھارت نے امریکاکا ساتھ نہیں دیا وہ غیر جانبدار ہوگیا۔ کیونکہ روس کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات ہیں حالانکہ اب بھارت کا جھکائو امریکاکی طرف اور امریکا کا جھکائو بھارت کی طرف ہے۔ اسی طرح یوکرین کے مسئلے پر امریکا اور یورپ کو یہ سمجھ آرہا ہے کہ دنیا کا رجحان کس طرف ہے۔ 

وال اسٹریٹ جرنل کی حالیہ اشاعت میں واضح کیا گیا ہے کہ روس پوری طرح تیاری کرچکا ہے اور کسی وقت بڑے حملے کا اندیشہ ہے۔ یوکرین ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ تمام نیم رضا کار فوجی دستوں کو فوری طلب کرلیا گیا۔ ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ یوکرین کے ساٹھ ہزار ڈاکٹر اور معاون میڈیکل اسٹاف ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ جبکہ یوکرین کی سرکار نے موجود ڈاکٹرز اور معاون میڈیکل اسٹاف پر ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

یوکرین کے صدر نے روسی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کی مخالفت کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ چھوٹے ممالک کے لئے بڑی تباہی ہے، مگر بڑی طاقت بھی برسوں اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔ آج کی دنیا میں بڑی طاقت یا چھوٹی طاقت ہر دو موجودہ صورت حال میں جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ایک پھر وائٹ ہائوس کی طرف سےبیان سامنے آیا ہے کہ روس کسی طور یوکرین پر حملہ نہ کرے ایسے میں امریکا اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ ادھر یورپ میں فرانس کے صدر میکرون کا بیان ریکارڈ پرہے کہ ماسکو میں صدر پیوٹن سے ملاقات میں سارے مسئلےپر بحث کی ہے اور صدر پیوٹن نے انہیں یقین دلایا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ نہیں کرے گا۔ مگر جرمنی نے نئی روسی تیل کی پائپ لائن بند رکھی ہے جس کا افتتاح گزشتہ ماہ ہونے والا تھا۔

یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ روس کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اس کاتیل اور قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ روس اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ وہ یورپ کو اس کی ضرورت کا چالیس فیصد سے زیادہ تیل اور قدرتی گیس فراہم کرتا ہے اگرروس تیل کی فراہمی روک دے تو یورپ اندھیروں اور سردی میں ٹھٹھر جائے گا۔

ماضی قریب میں دنیا جس طرح مشرق وسطیٰ کے تیل کی محتاج تھی اب مستقبل قریب میں روس کی محتاج ہوگی۔ قطع نظر اس تمام بحث کے ترقی پذیر ممالک کے لئے ان کی خارجہ پالیسی، فوجی پالیسی اور ڈپلومیسی ایک بڑا چیلنج بننے جارہی ہے۔ جیسا کہ سب نے دیکھا بھارت دونوں ہاتھوں میں لڈو تھام رہا ہے۔

ایک طرف امریکا، نیٹو دوسری طرف روس اور چین ہیں۔ ان طاقتوں اور نئی دنیا کی نئی ضروریات اور ہم عصر تقاضوں کے تحت پالیسی سازی سود مند ہوسکتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ دنیا اس حالت میں کسی بھی طرح کی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نہ کسی ہٹلر، اسٹالین، مولین یا پول پاٹ جیسے خبطی دماغ رہنمائوں کو برداشت کرسکتی ہے۔ امن صرف امن درکار ہے۔