• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برّاعظم یورپ چھوٹا برّاعظم کہلاتا ہے۔ لگ بھگ اٹھائیس ملکوں پر مشتمل ہے۔ کسی انگور کے خوشہ کی طرح اس میں جڑے ان تمام ممالک نے یورپ کی سیاسی اور دفاعی حکمت عملی ترتیب دینے، خطّہ کی حفاظت کرنے کے لئے ایک سیاسی دفاعی معاہدہ 1949ء میں طے کیا تھا جو نیٹو کہلاتا ہے۔ یہ مخفف ہے بحراوقیانوس شمالی کی معاہداتی تنظیم کا۔ اس تنظیم کے تیس اراکین ہیں، اٹھائیس یورپی ممالک اور دو امریکہ کینیڈا جو بحر اوقیانوس کے اس پار واقع ہیں۔ نیٹو میں برطانیہ، فرانس، جرمنی زیادہ اہم ممالک ہیں ان میں صرف برطانیہ اور فرانس جوہری قوت ہیں۔

نیٹو بلاشبہ ایک بڑی قوت ہے مگر امریکہ اس کا مضبوط ہاتھ ہے۔ اس طرح امریکہ کے لئے نیٹو اس کا مضبوط بازو ہے۔ یہ اشتراک عمل گزشتہ چار پانچ عشروں سے چلا آ رہا ہے۔ یہ معاہدہ درحقیقت روس کے خلاف ہے۔ اپنے دفاع کے لئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ، فرانس، ہسپانیا اور اٹلی اپنی نوآبادیات میں لوٹ کھسوٹ کے بھرم میں تھے اور ان کے ملکوں میں جمع ہتھیاروں کے ڈھیر ان سے ہضم نہیں ہو رہے تھے جبکہ یورپ کی اہم قوت ہونے کے باوجود ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ میں اپنی زیادہ نو آبادیات نہ بنا سکا جبکہ برطانیہ، فرانس اور اسپین کہیں آگے نکل چکے تھے۔ ایسے میں مفادات کا ٹکرائو اور بے چینی نمایاں تھی، جرمنی ان حالات میں اپنا سکّہ جمانے میں ناکام نظر آتا تھا۔ اڈلف ہٹلر نے اپنی نازی پارٹی کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ جمایا اور جرمن عوام میں وار ہسٹریا پیدا کر دیا انہیں یہ باور کرایا کہ وہ دُنیا کی عظیم نسل ہیں، تمہیں دُنیا پر حکومت کرنے کا حق ہے۔

اس طرح کے فاشسٹ خیالات کی بھرمار کو ہٹلر نے اپنی کتاب میری ’’جدوجہد‘‘ میں سمو کر شائع کی اور اس کتاب کی ڈیڑھ کروڑ کاپیاں جرمنی میں تقسیم کیں۔ ظاہر ہے کسی بھی نحیف و نزار قوم کے ذہنوں میں اس کے نام نہاد ماضی کی مصنوعی تصویر ذہن میں اُجاگر کرکے کہ تم عظیم ہو، تمہارے بزرگوں نے آدھی دُنیا فتح کی تھی، تمہاری جرأت، شجاعت اور استقامت کا لوہا دُنیا مانتی تھی۔ اُٹھو اور پوری نہ سہی آدھی دُنیا فتح کر لو۔ یہ نحیف و نزار قوم بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ پہلی جنگ عظیم دُوسرے عشرے میں شروع ہوئی۔ 

جرمنی ہر طرف چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ جرمنی نے میکسیکو کو پیش کش کی تھی ہمارے اتحاد میں شامل ہو جائو۔ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ آخر 1917ء میں امریکی صدر وڈرو ولسن نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا ایسے میں یورپ نے سکھ کا سانس لیا۔ امریکہ یورپ کے ساتھ جنگ میں شامل رہا۔ جاپان کو بھی تباہ کیا۔ پھر دُوسری جنگ کے اختتام کے بعد روس کے اشتراکی انقلاب کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کیا اس طرح امریکہ اور یورپی ممالک ایک دُوسرے کے ساتھ ہیں اور انہیں ایک دُوسرے کی ضرورت بھی ہے۔

بدلتی دُنیا کے جاری حالات میں عالمی معاملات زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس کی اصل طاقت برّی فوج، ٹینکوں کی لائن اور آرٹلری ہے اس کے علاوہ میزائل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ جبکہ نیٹو بحری ہوائی قوت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ برّی فوج بہت کم ہے۔

جاری حالات میں روس نے یوکرین کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ فوجی درجنوں ٹینک اور آرٹلری لگا دی ہے۔ روس کریمیا پر قابض ہے وہاں سب میرین اور لڑاکا بحری جہاز کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ تیس فیصد سے زیادہ روسی جو یوکرین میں آباد ہیں وہ روس کے طرفدار ہیں۔ یوکرین ان کو علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔ 

برطانیہ کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین یورپ کی دفاعی لائن ہے۔اگر روس نے اس پر قبضہ کر لیا تو یورپی یونین کی یکجہتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اس طرح افرادی طاقت میں روس فی الفور نیٹو پر بھاری ہے۔ اگر اس مسئلے میں پوری طرح ملوث ہو جاتا ہے تو پھر قدرے نیٹو کا پلہ بھاری ہو سکتا ہے مگر اس کے اثرات پھر یورپ یا مشرقی یورپ تک محدود نہیں ہوں گے۔ یہ سلسلہ اَزخود دراز ہو سکتا ہے دیگر ممالک بھی اس میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

اس تمام تناظر میں دیکھیں چین کہاں کھڑا ہے۔ بیشتر مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا مسئلہ چین نے کھڑا کیا ہے جب چین نے تائیوان کی طرف پیش قدمی کی تو امریکہ سمیت اکثر ممالک نے تائیوان کی حمایت کی اور چین کی مذمت کی تھی۔ ایسے میں چین نے امریکہ اور روس کو آمنے سامنے کر دیا۔ یکلخت تائیوان کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا اور یوکرین سامنے آ گیا جبکہ تائیوان کا برّی بحری محاصرہ جاری ہے چینی لڑاکا طیارے تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ مگر عالمی میڈیا میں یوکرین کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں کسی کو دوست نہیں مانتی ہیں۔ چین کیوں روس کی قوت برداشت کرے جبکہ روس کے بھی وہی عزائم ہیں جو چین کے ہیں۔ اس وقت ایک تکون بنی ہے جس کے درمیان ایک قوت نیٹو ہے۔ یہاں نکتہ یہ اُبھرتا ہے کہ چین عالمی تجارت میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے اور مزید سرمایہ کاری کر کے چین اپنی سیاسی، تجارتی اور معاشرتی قوت میں اضافہ کر رہا ہے جبکہ امریکہ کی معیشت کا زیادہ دارومدار ہتھیاروں کی فروخت پر ہے۔ 

اس میدان میں اب روس بھی وارد ہوگیا۔ روسی ہتھیار جدید، کارگر اور نسبتاً امریکی ہتھیاروں سے اَرزاں ہیں۔ حال ہی میں بھارت نے روسی میزائل ڈیفنس سسٹم ایس۔400 روس سے خریدا ہے جس پر امریکہ بھارت سے شدید ناراض ہے۔ روس ہتھیاروں کی منڈی میں بتدریج اُبھر رہا ہے۔امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں چینی اور شمالی کوریا کی کمیونسٹ پارٹیوں کی حکمت عملی اور ان کی اصل منشاء کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میز پر مذاکرات کرنے میں مغربی رہنمائوں اور سفارتکاروں کو لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔

اگر فرض کریں کہ جیسا لگ رہا ہے روس یوکرین پر حملے کر سکتا ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو درحقیقت یہ روس اور نیٹو کی جنگ ہوگی۔ ظاہر ہے دونوں فریق کم یا زیادہ نقصان اُٹھائیں گے اور تیسری قوت جو خاموش تماشائی ہے وہ بہت فائدے میں رہے گی۔ آثار کچھ ایسے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ بہرطور سیاست میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ کل کے دوست آج دُشمن اور آج کے دُشمن کل دوست ہو سکتے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے امریکا سے کہا ہے کہ روس پر ابھی فوری مزید اقتصادی اور سماجی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ یوکرین پر حملے کا انتظار نہ کیا جائے۔ یہ بات انہوں نے پبلک میں ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ 

سی این این کی معروف اینکر پرسن کرسٹین امان پور نے ان سے پوچھا اس پر روس کا ردعمل کیا تھا۔ زیلنسکی نے مزید کہا کہ امریکا کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ اگر اقتصادی پابندیاں لگانا ہے تو روس کے حملے سے پہلے ہی لگا لو، یوکرین پر بمباری کے بعد روس پر پابندی لگے نہ لگے ہمیں کیا ہمیں وہ نقصان پہنچا چکا۔ صدر ولادی میر زیلنسکی نے نیٹو کے سربراہ کو تجویز دی ہے کہ یوکرین کے عوام میں ہتھیار تقسیم کر دیئے جائیں تا کہ اگر روسی اندر داخل ہوں تو عوام ان کا مقابلہ کر سکیں۔ صدر ے نیٹو کو یہ تجویز اس لئے دی ہے کہ روس نے یوکرین میں روسی آبادی میں خفیہ طور پر ہتھیار تقسیم کر دیئے ہیں۔

یورپی یونین نے روس کے یوکرین پر لگائے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روس کی پروپیگنڈہ مشین برابر یوکرین پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کر رہی ہے۔ دُنیا جانتی ہے کہ یوکرین ایک پُرامن صلح جو ملک ہے۔ اُس نے اپنے تمام جوہری ہتھیار امن کے نام پر واپس کر دیئے تھے۔ یوکرین کے صدر وہاں کی پارلیمان بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی دفاعی معاہدہ کا حصہ بننے پر راضی نہیں ہیں۔ عوام نے جنگ اور اس کی تباہ کاریاں دیکھ رکھی ہیں۔ وہ ان ڈرائونے خوابوں کو دُہرانا نہیں چاہتے ہیں۔

یورپی یونین کے مشیر دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ روس نے اپنے جدید ہیوی ہتھیار یوکرین کی سرحد پر جمع کر رکھے ہیں ان کو فوری ہٹائے۔ یوکرین کے صدر نے بھی روس سے کہا کہ ٹینک بکتربند گاڑیاں آرٹلری بڑی تعداد میں یوکرین کے اطراف جمع ہے ان ہتھیاروں کو ہٹایا جائے اور روس کے صدر خطّے میں کشیدگی کم کریں۔ یوکرین کے صدر نے ایک بار پھر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے کہ صرف مذاکرات کے ذریعہ معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ مگر بتایا جا رہا ہے کہ ماسکو کی طرف سے اس حوالے سے خاموشی ہے۔ مشرقی یورپ کے دیگر ممالک نے بھی سفارتی محاذ پر مذاکرات کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ 

البانیہ، رومانیہ اور ہنگری کے سفیروں نے ماسکو میں اپنے اپنے سربراہوں کے پیغام پہنچائے ہیں،جبکہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس بھی یورپی یونین کے دورے پر ہیں۔ دراصل امریکا کو یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اگر روس سے جنگ چھڑتی ہے تو کون اس کے ساتھ کھڑا ہے اور کون غیرجانبدار بن کر بیٹھ جاتا ہے کیونکہ یورپی یونین کے دو اہم ترین ملک فرانس اور جرمنی متواتر ماسکو کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ البتہ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن مسلسل یورپی یونین کو روس کے ممکنہ حملے سے خبردار کر رہے ہیں۔ برطانیہ نے روس اور امریکا دونوں سے رابطے رکھے ہیں۔ اگر جنگ ہوئی تو برطانیہ امریکا کا ساتھ دے گا۔ اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی حالیہ اشاعت میں بھارت کے وزیر خارجہ نے یوکرین سے کہا ہے کہ ڈیڑھ سو سےزائد بھارتی طلبہ کی واپسی کو یقینی بنائے اس میں بھارت یوکرین کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی یوکرین کے مسئلے پر جو خبریں شائع ہو رہی ہیں ان کے مطابق جنگ کےامکانات زیادہ ہیں۔ بھارت کے لئے دُہری مشکل آن پڑی ہے ایک طرف روس پرانا حلیف، ایک طرف امریکا نیا حلیف، دونوں پلڑوں میں توازن کیسے قائم رکھے، یہ سوال ہے۔ آج کی دُنیا کی جدلیات کے مطابق ریاست کی قوت معاشی استحکام اور بامقصد خارجہ پالیسی میں ہے۔

نیٹو کے سینئر ترجمان ہنری ملر نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ روس ہماری طاقت کو کم تر تصوّر نہ کرے نیٹو کی برّی، بحری اور ہوائی افواج ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ جبکہ یورپ میں ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے کام کرنے والی بڑی بڑی غیرسرکاری تنظیموں نے روس کو خبردار کیا ہے کہ وہ کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول سے کھلواڑ نہ کرے۔ کرّۂ اَرض کسی بھی مہم جوئی جنگ و جدل کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 

بلجیم اور برلن میں این جی اوز نے مظاہرے بھی کئے،مگر محسوس ہوتا ہے کہ روس نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ کسی بھی طور نیٹو میں اراکین کے اضافہ کو برداشت نہیں کرے گا اور مشرقی یورپی ممالک کو یورپی یونین میں شامل نہیں ہونے دے گا۔ روس کی اس یک طرفہ پالیسی کی ہر طرف سے مذمت جاری ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ روس وہائٹ ہائوس میں ایک معمر صدر کی موجودگی کا بھی فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔

بات یوں بھی ہے کہ روس کے صدر پیوٹن سابق سوویت یونین کے دور کی صورت حال کی سُپرپاور بننا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین اَرضیات کی جو جائزہ رپورٹس منظرعام پر آ چکی ہیں۔ روس کے وسیع تر برفانی خطّہ کے نیچے قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں۔ شمالی قطبی سرحدی علاقے میں پہلے ہی روس معدنیات تلاش کر رہا ہے جہاں وافر مقدار میں قیمتی معدنیات کے ذخائر دریافت ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ 

ایسے میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ آئندہ برسوں میں روس دُنیا کا سب سے امیرترین ملک اور زبردست سپر پاور بن کر اُبھرے گا۔ یہ محض خیالی خاکہ نگاری نہیں ہے بلکہ زمینی حقائق ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے کہ تو پھر دُنیا بڑی تبدیلیوں سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس کا اندازہ مشکل ہوگا۔ مگر ماہرین اس نکتہ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ روس کہتا ہے روک سکتے ہو تو روک لو۔