موسیقار ہویا گلوکار، شعروسخن سے لگائو ہونا فطری ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا پروفیشن شاعری کا محتاج ہوتا ہے۔ موسیقار کی بنائی ہوئی دُھن کو جب تک شاعری کا پیرہن نہ ملے، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بغیر جسم کے روح! بالکل اسی طرح گلوکار کی آواز شاعر کی شاعری کے قالب میں ڈھل کر ہی اپنے اصل خدوخال کو پاتی ہے، لیکن ایسا تو اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ جو گلوکار ہو، وہ شاعر بھی ہو ، لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی موسیقار ہو، اس کے ساتھ وہ بہترین شاعر بھی ہو۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی 74؍سالہ فلمی تاریخ میں جہاں سیکڑوں موسیقار آئے اور ان میں سے بہت سے اپنی تخلیق کردہ یادگار موسیقی نواز دُھنوں کی بدولت امر ہوئے، لیکن ایسے موسیقاروں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں کہ جنہیں بہترین موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خُوب صورت اور عمدہ شعریت کے حامل گیت لکھنے میں ملکہ حاصل ہو۔ ایسے جامع کمال موسیقاروں اور شاعروں میں پہلا نام بابا جی۔اے چشتی کا سامنے آتا ہے۔
بلاشبہ وہ ایک عظیم موسیقار تو تھے ہی، جنہوں نے برٹش انڈیا کے دور میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ متحدہ ہندوستان کے لیے متعدد فلموں کی موسیقی مرتب کی۔ میڈم نورجہاں کو 9؍سال کی عمر میں فلمی گیت گوایا، جو موسیقار خیام اور رحمٰن سورما کے استاد بھی تھے۔ جی۔اے چشتی نے قیام پاکستان سے قبل کی متعدد فلموں کی موسیقی تو دی، لیکن وہاں کی چند فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی اور جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو ہدایت کار نذیر کی فلم ’’پھیرے‘‘ جو پاک فلم انڈسٹری کی ابتدائی پنجابی فلم تھی، کے لیے نہ صرف چھ عدد گیت تحریر کیے، بلکہ لکھنے سے ان کی ریہرسل اور ریکارڈنگ تک کا عمل ایک دن میں مکمل کرکے ایک حیرت انگیز اور منفرد ریکارڈ بنایا۔
فلم ’’پھیرے‘‘ 1949ء نے شان دار سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم کی کام یابی میں جی۔اے چشتی کی مرتب کردہ دل کش دھنوں کا بڑا حصہ تھا۔ تاہم بہ طور شاعر بھی بابا جی نے خود کو منوایا۔ بعدازاں ہدایت کار نعمان کی ’’پتن‘‘ اور آغا حسینی کی ’’خیبر میل‘‘ کے لیے نہ صرف موسیقی مرتب کی، بلکہ ان فلموں میں بہ طور نغمہ نگار بھی اپنا حصہ ڈالا، لیکن شاعر کی حیثیت سے بابا جی۔اے چشتی کا بڑا اہم کام 1992ء میں اس وقت سامنے آیا کہ جب عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ اس عظیم المثال فتح کے تناظر میں بابا جی۔اے چشتی نے ’’دیکھو دیکھو لے کے عالمی کپ عمران آگیا، عمران آگیا۔‘‘ اس گیت کی طرز بھی بابا جی نے مرتب کی تھی۔ یہ ولولہ انگیز گیت پی ٹی وی سے بارہا نشر ہوا۔
میٹھی، سُریلی اور نہایت منفرد فلمی نغمات کی دُھنوں کے خالق موسیقار ماسٹر عبداللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ’’ملنگی‘‘ ’’لاڈو‘‘ ’’شہنشاہ‘‘ ’’سورج مکھی‘‘ ’’شریف بدمعاش‘‘ ’’ضدی‘‘ ’’دنیا پیسے دی‘‘ ’’جاگدے رہنا‘‘ ’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘ ’’کمانڈر‘‘ ’’بدل گیا انسان‘‘ ’’قسمت‘‘ ’’کشمکش‘‘ اور ’’چوروں کا بادشاہ‘‘ جیسی فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں، لیکن ایک فلم ’’واہ بھئی واہ‘‘ جو ’’ملنگی‘‘ جیسی شان دار فلم بنانے والی ٹیم کا اردو تجربہ تھا، کے لیے ماسٹر عبداللہ نے موسیقی دینے کے ساتھ ساتھ دو عدد نغمات کی شاعری بھی خود کی۔ ان میں سے ایک گیت کے بول تھے ’’جس نے لگائی میرے ہاتھوں کو مہندی، جس نے دکھائی مجھے راہ‘‘۔ ماسٹر عبداللہ کے بہترین شاعرانہ ذوق تخلیق کا مظہر تھا، جس کی لازوال دُھن خود ماسٹر عبداللہ کی مرتب کردہ تھی۔
مشرقی پاکستان سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے بشیر احمد کا شمار ان باصلاحیت فن کاروں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے گائیکی، موسیقی اور شاعری یعنی تینوں جہتوں میں خود کو بھرپور انداز سے منوایا۔ فلمی کیریئر کا آغاز بشیر احمد نے فلم ’’تلاش‘‘ 1963ء سے بہ طور گلوکار کیا۔ (1)میں رکشے والا بے چارہ اور (2)کچھ اپنی کہیے، کچھ میری بھی سنیے، جیسے سُریلے اور سپرہٹ گیت گا کر خود کو بہترین سنگر منوایا۔
پھر مستفیض کی فلم ’’پیسے‘‘ کی وساطت سے بہ طور شاعر سامنے آئے۔ رحمٰن کی ’’ملن‘‘ 1964ء کے لیے ’’تم جو ملے پیار ملا، دل کو قرار آگیا‘‘ جیسا سدابہار ڈوئٹ گیت لکھا اور خود کو پائے کا شاعر منوایا۔ اسی فلم کے لیے ایک اور گیت ’’کوئی دِل میں آ کے مسکرا گیا‘‘ بھی تحریر کیا۔ ایس ایم پرویز کی ’’کارواں‘‘ کے لیے اعلیٰ شاعری کا حامل گیت ’’جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے‘‘ لکھ کر بہ طور شاعر اور گا کر بہ طور بہترین سُریلے اور میٹھے گلوکار کے طور پر منوایا۔
’’درشن‘‘ 1967ء جو ہدایت کار رحمٰن کے کریڈٹ پر واحد سپر ڈوپر ہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی، کے لیے بشیر احمد پہلی بار بہ طور موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار یعنی بہ یک وقت تین حیثیتوں میں (تھری اِن وَن) کے طور پر سامنے آئے۔ (1) یہ موسم یہ مست نظارے، (2) گلشن میں بہاروں میں تو ہے۔ (3) ہم چلے چھوڑ کر۔ (4) دن رات خیالوں میں۔ (5) چُن لیا اِک پھول کو۔ (6) یہ سماں پیارا پیارا، جیسے مقبول عام گیتوں کی بدولت ’’درشن‘‘ نے بلاک بسٹر کام یابی حاصل کی۔ علاوہ ازیں رحمٰن کی فلم ’’جہاں باجے شہنائی‘‘ 1968ء اور ’’چلو مان گئے‘‘ 1970ء کی موسیقی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے نغمہ نگاری بھی کی اور گیت بھی گائے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ بشیر احمد بہ طور گلوکار و موسیقار اپنا نام فلم کے کریڈٹ پر بشیراحمد دیتے تھے، جب کہ بطور نغمہ نگار خود کو بی۔ اے دیپ موسوم کرتے تھے۔
موسیقار کمال احمد پاکستانی فلمی میوزک کے ضمن میں ایک انتہائی مقبول نام رہا ہے۔ سادہ اور میٹھی دُھنیں بنانے میں انہیں خاص کمال حاصل تھا۔ اسی باعث انہیں عوامی موسیقار بھی کہا جاتا ہے۔ ’’دِیا اور طوفان‘‘ ان کی موسیقی سے سجی پہلی گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی اور اسی فلم سے انہوں نے خود کو بہ طور شاعر بھی متعارف کروایا۔ ان کے لکھے پہلے گیت کے بول تھے ’’سنو اے دل والوں کنوارے مر جانا… مگر ان حسینوں سے دِل نہ لگانا‘‘۔
یہ ایک مزاحیہ گیت تھا، جس کی شاعری خاص قابل ذکر نہ تھی، لیکن فلم ’’رنگیلا‘‘ کے لیے ان کا تحریر کردہ وہ گیت (1) ہم نے جو دیکھنے خواب سہانے، فلم ’’دل اور دُنیا‘‘ کے لیے ان کا لکھا ہوا گیت ’’چل میرے ہمراہی یوں نہ ٹھمک ٹھمک دھر پائوں‘‘ کمال احمد کے بہترین تخلیقی شعری ذوق کا شان دار مظاہر تھے، جب کہ بہ طور موسیقار ان کے کریڈٹ پر نغمہ بار فلموں کی تعداد بہت بڑی ہے، جن میں دیا اور طوفان، رنگیلا، دل اور دُنیا، بشیرا، دولت اور دُنیا، منجی کتھے ڈاہواں، غلام، وارنٹ، دُلہن ایک رات کی، اَن داتا، وعدہ، عشق عشق، بڑے میاں دیوانے، پرنس، مہندی لگی میرے ہاتھ، محبت اور مہنگائی، تیرے میرے سپنے، دہلیز، بے ایمان، الٰہ دین، گہرے زخم، سلاخیں، بہن بھائی، میاں بیوی راضی، عشق نچاوے گلی گلی، آندھی، آسمان، تیرے بنا کیا جینا اور جینے نہیں دوں گی کے نام بھی شامل ہیں۔
موسیقار و گلوکار ’’زین‘‘ جنہیں ہدایت کار عجب گل نے اپنی سسپنس فل تھرلر مووی ’’کھوئے ہو تم کہاں‘‘ 2001ء میں متعارف کروایا۔ بہ طور سنگر و موسیقار انہوں نے اس فلم کی وساطت سے خود کو بھرپور انداز میں منوایا۔ تاہم ہدایت کار سیّد نور کی ’’لڑکی پنجابن‘‘ میں ’’زین‘‘ موسیقار و گلوکار کے علاوہ بہ طور نغمہ نگار کے بھی سامنے آئے۔ (1) اِک لڑکی پنجابن دل لے گئی۔ (2) کچھ پیار کا پاگل پن ہے اور (3) یادیں سوہنے سجن دیاں، جیسے گیت لکھ کر زین نے بشیر احمد کی طرح گائیکی، شاعری اور موسیقی کے شعبوں میں اپنا نام رجسٹرڈ کروایا۔
علاوہ ازیں موسیقار حمید جاذب فلم مسکراہٹ 1963ء اور شطرنج کے لیے موسیقار جامی نے فلم فریب اور اُلفت کے لیے موسیقار الیاس نے ’’لہو پکارے گا‘‘ کے لیے اور رنگیلا نے عورت راج کے لیےموسیقی دینے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کی، جب کہ ریوائیول آف سینما کی تحریک میں بھی اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے وقار علی نے ’’ایک اور لو اسٹوری‘‘، جواد احمد نے موسیٰ خان، شعیب منصور نے ’’بول‘‘ نجم شیراز نے ’’چنبیلی‘‘ اور احمد شجاع حیدر نے ’’جلیبی‘‘ کے لیے بہ طور موسیقار و نغمہ نگار خدمات انجام دیں۔