• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا وزیراعظم اور ترین رابطے میں کچھ طے ہوا؟

پیپلزپارٹی کا کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ آج تین مارچ کو بہاول پور کے راستے ملتان پہنچے گا ،ادھر شاہ محمود قریشی اندرون سندھ سے ’’حقوق سندھ مارچ ‘‘شروع کرکے کراچی کی طرف رواں دواں ہیں ، ملتان میں آج بلاول بھٹو کی موجودگی میں لانگ مارچ کے شرکاء کا زبردست استقبال کرنے کے لئے تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں ،اس سلسلہ میں ملتان اور گردونواح میں پچھلے کئی دنوں سے جلسوں ،کارنر میٹنگز اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رہا ،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا ملتان میں بلاول بھٹو کے استقبال اور جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے پوری طرح متحرک رہے۔ 

لانگ مارچ کے شرکاء ایک رات قیام کے بعد اگلے دن ملتان سے لاہور کی طرف روانہ ہوں گے ، جتنا بڑا قافلہ کراچی سے شروع ہوا تھا ،پیپلزپارٹی کے حامیوں کو توقع ہے کہ وہ ملتان تک آتے آتے کئی گنا زیادہ ہوچکا ہوگا ،کہا یہ جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے اس لانگ مارچ سے پنجاب کے اندراپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی ، تاہم اس کا اندازہ اس وقت ہوگا، جب بلاول بھٹو کا یہ مارچ لاہور پہنچے گا۔

جہاں تک تحریک انصاف کے اس مارچ کا تعلق ہے ، جو شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں گھوٹکی سے شروع کیا گیا ،تو اس کے حوالے سے کچھ زیادہ حوصلہ افزاء خبریں سامنے نہیں آئیں، جس پر سید یوسف رضا گیلانی نے یہ تبصرہ کیا کہ تحریک انصاف اس مارچ سے آخر حاصل کیا کرنا چاہتی ہے ،جبکہ وہ ساڑھےتین سال میں عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری اور بدامنی کے سوا کچھ نہیں دے سکی ، ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کو حقوق دینے کے نام پر کیا جانے والا تحریک انصاف کا لانگ مارچ اس لئے مضحکہ خیز ہے کہ اگر وفاقی حکومت سندھ کو حقوق دینا چاہتی ہے ،تو اسے کس نے روک رکھا ہے ،جبکہ شاہ محمود قریشی اپنے اس مارچ کے دوران مسلسل آصف علی زرداری اور سندھ حکومت پر تنقید کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 14 سال تک سندھ کا استحصال کرنے والوں کے خلا ف عوام اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، لیکن اس دوران لوگوں نے دیکھا کہ سندھ کی عوام ہزاروں کی تعداد میں بلاول بھٹو کے لانگ مارچ کے لئے نکلے ،سیاسی حلقے اس بات پر بھی حیران ہیں کہ تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے جواب میں سندھ حقوق مارچ کرنے کی ضرورت کیو ں پیش آئی ،وفاقی حکومت میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف ،اپوزیشن پارٹی کا کردار کیوں ادا کررہی ہے ، اس سے تو بہتر تھا کہ وفاقی حکومت سندھ کے لئے ایسے پراجیکٹس کا اعلان کرتی ،جو یہاں کی پسماندگی اور عوام کی محرومی کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ،یہ کہنا کہ آئندہ سندھ میں بھی ہم حکومت بنائیں گے ،ایک قبل ازوقت نعرہ ہے ،کیونکہ خود تحریک انصاف یہ موقف اختیار کئے ہوئے ہے کہ 2023ء تک عمران خان نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکے گی ،جب یہ سیٹ اپ 2023ء تک چلتا ہے ،تو سندھ حکومت بھی برقرار رہے گی۔ 

اس کے خلاف اس طرح کی مہم جوئی سوائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اور کوئی اہمیت نہیں رکھتی ، البتہ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کا ایک واضح مقصد ہے اور وہ حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے ،بلاول بھٹو یہ نعرہ لگا کر لانگ مارچ کے ساتھ روانہ ہوئے ہیں کہ وہ اسلام آباد پر جمہوری حملہ کرنے جارہے ہیں ، ملتان میں تحریک انصاف کے رہنما اس بات پر حیران ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے اپنا ملتان مظبوط رکھنے کی بجائے اس موقع پر سندھ کو کیوں اپنا ہدف بنا لیا ہے ،کارکردگی کے لحاظ سے تحریک انصاف عوام کی ہمدردیاں حاصل نہیں کرپارہی ، ضمنی انتخاب سے لے کر خیبر پختوانخواہ بلدیاتی الیکشن تک ،اس حوالے سے ایک واضح تاریخ موجود ہے۔

ایسے میں اپوزیشن کے لئے تو ایک کھلا میدان موجود ہے کہ وہ حکومت کے خلاف عوام کو متحرک کرے ،لیکن حکومت کس طرح مارچ کے ذریعے یہ تاثر دے سکتی ہے کہ وہ ان کے حقوق کا تحفظ کررہی ہے۔جہاں تک اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سرگرمیوں کا تعلق ہے ،تو اس میں دعوے تو بہت کئے جارہے ہیں ،مگر یہ بیل آسانی منڈھے چڑھتی نظرنہیں آرہی ،کیونکہ جب تک مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم اتحادی کے طور پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں ،تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا آسان نظر نہیں آتا ، اس میں ایک تیسرا کردار جہانگیرترین گروپ کا ہے ، یعنی کے وہ لوگ جو تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہیں ،اگر تحریک عدم اعتماد کے وقت اپوزیشن سے مل جاتے ہیں ،تو ایک بڑی تبدیلی کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔

مگر جہانگیر ترین کا علالت کے باعث اچانک لند ن چلے جانا ،ان کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے ، تاہم اپوزیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین سے مذاکرات ہوچکے ہیں اور معاملات طے بھی پاچکے ہیں ،اس دوران ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کی عیادت کے لئےان سے رابطہ کیا ، یہ پچھلے دوسال میں پہلا موقع ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان کوئی رابطہ ہوا ہے ،اس بات کو سیاسی حلقے بڑی اہمیت دے رہے ہیں ، ان کے خیال میں وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایک واضح سیاسی دباؤ محسوس کررہے ہیں ،جس کی وجہ سے وہ جہانگیرترین سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوا کی جس کی وجہ سے عمران خان کو جہانگیر ترین سے رابطہ کرنا پڑا ،گویا وہ جو خبریں گرم ہیں کہ اپوزیشن کے جہانگیرترین سے معاملات طے پاچکے ہیں ،اس میں کہیں نہ کہیں صداقت موجود ہے، جس کا توڑ کرنے کے لئے عمران خان کو بھی جہانگیر ترین سے رابطہ کرنا پڑا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک زمانے میں جہانگیر ترین گروپ کا مطالبہ بھی یہی تھاکہ وزیراعظم عمران خان ان سے خود رابطہ کریں، لیکن وزیراعظم نے ان ناراض گروپ سے رابطہ نہیں کیا تھا ، جس کی وجہ سے بات بڑھتے بڑھتے بہت بڑی خلیج پیداکرنے کا باعث بن گئی تھی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید