• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی پی کاوفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کا سندھ حکومت کے خلاف مارچ شروع ہوچکا ہے پی پی پی کا لانگ مارچ اتوار کو مزارقائد سے شروع ہوگیا ہے۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مارچ کے آغاز میں ہی گوسلیکٹڈگو کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو 38 مطالبات بھی پیش کردیئے مارچ کے آغاز اور مختلف مقامات پر عوامی استقبالیہ کیمپوں میں کارکنوں سے خطاب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈکو ہٹائیں گے عوامی حکومت بنائیں گے۔ عوامی لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لیے بلاول کراچی میں مزارقائد پہنچے تو کارکنوں نے شاندار استقبال کیا۔ 

جہاں انہوں نے شرکاسے خطاب میں کہاکہ ہمارا عوامی مارچ حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہے، ہمارا یہ سفر قائداعظم کے شہر کراچی سے شروع ہورہا ہے، اسلام آباد پہنچ کر حکومت پر حملہ کریں گے۔ کراچی کے عوام نالائق اور نااہل حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت کے 3 سال ہونے پر کراچی کے عوام احتجاج پر مجبور ہوگئے، یہ ہرصوبے کے حقوق پر ڈاکہ ماررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مرادعلی شاہ اور حکومت سندھ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں لیکن سندھ حکومت کم وسائل کے باوجودکراچی کے عوام کی خدمت کررہی ہے، جب تک کٹھ پتلی، حکومت ہے سندھ ترقی کرسکتا ہے نہ پاکستان۔ 

چیئرمین پی پی نے کہا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا وقت آگیا ہے ، ہمارا مارچ شروع ہوتے ہی بنی گالا سے چیخیں آئیں گی، ہمارا عوامی مارچ حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہے حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری کے مزارقائد پہنچنے پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے پرجوش نعرے لگائے۔ اس موقع پر لانگ مارچ میں شریک چھوٹی وبڑی سینکڑوں گاڑیوں سے باہر نکل آئے۔ عوامی لانگ مارچ میں شرکت کے لیے مزارقائد پہنچنے والے پیپلزپارٹی کے ورکرزنے بلاول بھٹوزرداری کا وزیراعظم بلاول بھٹو کے نعروں سے بھرپور استقبال کیا۔ 

پی پی پی کے کارکنوں کے فلک شگاف نعروں سے مزارقائد کے اطراف کا علاقہ گونج اٹھا۔ لانگ مارچ کے شرکا نے مزارقائد پر پر وکٹری کا نشان بناکر بلاول بھٹو زرداری سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔ مزارقائد اعظم سے شہرقائد کے اختتام تک جگہ جگہ مختلف مقامات پر عوامی مارچ کے شرکا کا فقید المثال استقبال کیا، گل پاشی کی گئی، عوامی لانگ مارچ پہلے مرحلے میں ماتلی بدین پہنچ گیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ ملک کے 23 اضلاع اور 37 شہروں سے ہوتا ہوا 1600 کلومیٹر کا طویل سفر طے کرکے کراچی سے براستہ حیدرآباد، سکھر، رحیم یارخان، بہاولپور، ملتان، لاہور ، گرجرانوالہ سے ہوتا ہوا 8 مارچ کو راولپنڈی سے اسلام آباد پہنچے گا۔ 

دوسری طرف پیپلزپارٹی نے عوامی مارچ کے 38 مطالبات کے پیش کرتے ہوئے تمام اداروں کے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات ہوں،1973 کے آئین میں دیئے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری کی جائے، آزادالیکشن کمیشن کا قیام کیا جائے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973کے آئین میں دیئے گئے کردار کا ازسرنوتعین کیا جائے، ایک آزاد اور قابل احتساب عدلیہ کو ممکن بنایا جائے، بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دیئے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کی فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور سیاسی گفت شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماؤں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں بینر، پوسٹر، پارٹی جھنڈے لگائے گئے کراچی میں سعیدغنی اور پی پی پی کے صوبائی جنرل سیکریٹری وقار مہدی جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں پارٹی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو نے کارکنوں کو متحرک کیا پی پی پی نے لانگ مارچ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے خلاف کیا ہے تاہم کہاجارہا ہے کہ مارچ کے اہداف مقررنہیں۔ کیونکہ پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف تنقید اس کی کارکردگی کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کے باوجود یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے کسی طرز عمل یااقدام سے ملک میں جاری جمہوری سسٹم کو کوئی نقصان پہنچے۔ 

دوسری جانب خود حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے بھی سندھ حکومت کی کارکردگی اور خصوصاً پیپلزپارٹی کے کردار کی بنیاد پر ایک مارچ شروع ہے جس کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگروزراء کرتے نظر آرہے ہیں بلاول کی جانب سے جاری جدوجہد اور ان کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے نجات کو سلیکٹڈ سےنجات کا عمل دراصل پارٹی کی ایک قومی حیثیت قائم کرتے ہوئے آنے والے انتخابات میں عوام کی توجہ کا مرکز بننا ہے اور یہی بڑا سوال خود پیپلزپارٹی کے آگے کھڑا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے آنے والے انتخابات میں اپنی قومی اہمیت قائم کرپائے گی۔

عملاً اگر دیکھا جائے تو فی الحال اس کے امکانات کم نظرآرہے ہیں ۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس مارچ کے نتیجہ میں کسی قسم کے اپ سیٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے سندھ کی سطح پر پیپلزپارٹی اور اس کی حکومت کے خلاف مارچ کے نتائج بھی پیپلزپارٹی کے مارچ کی طرح کوئی زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید